نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کردیا۔
1۔ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مشہور تھا، مگر اس میں بہت سی خرافات اور غلط باتیں شامل تھیں، اس لیے فرمایا کہ ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ 2۔ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ ....: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے، اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ چند نوجوان تھے اور نوجوان بوڑھوں کی نسبت حق کو زیادہ قبول کرنے والے ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والے اکثر نوجوان تھے۔ قریش کے بوڑھے بزرگ اپنے دین ہی پر باقی رہے، ان میں سے بہت کم ہی ایمان لائے۔ کئی ایک ائمہ مثلاً بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے ’’ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًى ‘‘ (اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کر دیا) سے استدلال فرمایا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم بھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے لیے آٹھ آیات اور بہت سی احادیث بیان فرمائی ہیں۔ اتنی واضح آیات و احادیث کو پڑھ کر بھی کئی حضرات اڑے ہوئے ہیں کہ اصل ایمان میں سب برابر ہیں، وہ نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے، ہمارا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور جبرائیل علیہ السلام سب کا ایمان برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے نبی کی بات پر ’’سَمِعْنَا وَ آمَنَّا‘‘ کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) 3۔ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ : یعنی یہ چند جوان تھے جو اپنی قوم کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جیسا کہ ان کے کھانا منگواتے ہوئے سب سے ستھرا کھانا رکھنے والے شخص سے کھانا منگوانے کی فرمائش سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ان کی قوم اور بادشاہ مشرک بت پرست تھے، مگر یہ نوجوان بت پرستی چھوڑ کر اپنے رب کی توحید پر پختہ اور خالص ایمان لے آئے اور اس پر ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر خویش و اقارب، مال و منال اور وطن کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اور زیادہ ہدایت و ایمان سے نواز دیا۔