إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا
جب ان جوانوں نے غار کی طرف پناہ لی تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے کوئی رحمت عطا کر اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں کوئی رہنمائی مہیا فرما۔
اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ ....: ’’ اَوَى ‘‘ (ض) جگہ پکڑی، پناہ لی۔ ’’الْفِتْيَةُ ‘‘ ’’ فَتًي‘‘ کی جمع قلت ہے، جوان جو آغاز شباب میں ہوں۔ ’’ هَيِّئْ ‘‘ باب تفعیل سے امر ہے، مہیا فرما، میسر فرما، ’’رَشَدًا ‘‘ بھلائی، رہنمائی۔ ’’ اِذْ ‘‘ یا تو ’’ كَانُوْا ‘‘ کی ظرف ہے، یا ’’ عَجَبًا ‘‘ کی اور یا ’’أُذْكُرْ‘‘ کی جو محذوف ہے، یعنی جب چند نوجوان جو اپنی مشرک قوم اور مشرک بادشاہ کے سامنے توحید کا برملا اظہار و اعلان کرنے کی وجہ سے انھیں مطلوب تھے، اپنے گھروں سے نکلے اور انھوں نے ایک پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے، یعنی محض اپنے فضل اور اپنی جناب سے کوئی بھی رحمت جو تو چاہے عطا فرما، جیسے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا تھا : ﴿رَبِّ اِنِّيْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ ﴾ [ القصص : ۲۴ ] ’’اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔‘‘ رحمت میں کھانا پینا، امن و اطمینان اور ضرورت کی ہر چیز شامل ہے۔’’هَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ‘‘ اور ہمارے لیے اس معاملے میں کوئی رہنمائی عطا فرما کہ ہم کیا کریں۔