وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں، سو بنی اسرائیل سے پوچھ، جب وہ ان کے پاس آیا تو فرعون نے اس سے کہا یقیناً میں تو تجھے اے موسیٰ ! جادو زدہ سمجھتا ہوں۔
1۔ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۭ ....: یعنی ہم موسیٰ علیہ السلام کو ایسے نو (۹) معجزے دے چکے ہیں جو ان کی نبوت پر کھلی نشانی تھے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے اور قریش کو اس مطالبے کا جواب دیا ہے جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ یہ کام کرکے نہ دکھا دیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ سے تو چھ معجزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو نو معجزے دیے، مگر نہ ماننے والوں نے پھر بھی نہ مانا۔ ان نو (۹) معجزوں کا ذکر سورۂ اعراف کی آیات (۱۰۷،۱۰۸،۱۳۰،۱۳۳) میں ہے۔ بعض نے ان سے شریعت کے نو (۹) احکام مراد لیے ہیں، جو تمام شریعتوں میں ثابت تھے، مگر صحیح یہی ہے کہ یہاں نو (۹) معجزات ہی مراد ہیں وہ نو احکام دراصل تورات میں مذکور نو وصیتیں ہیں جو بنی اسرائیل کو دی گئیں، ان کا فرعون کے سامنے پیش کیے گئے معجزوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی دلیل سورۂ نمل کی آیات (۱۰ تا ۱۲) ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے عصائے موسیٰ اور ید بیضا کا ذکر کرکے فرمایا : ﴿فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖ ﴾ [ النمل : ۱۲ ] یعنی یہ دونوں معجزے ان نو (۹) معجزوں میں شامل تھے جو موسیٰ علیہ السلام کو دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اور معجزات بھی دیے گئے، مثلاً پتھر سے بارہ چشمے جاری ہونا، گائے کا حصہ مارنے سے مردہ زندہ ہونا، من و سلویٰ، بادلوں کا سایہ، پہاڑ کا اکھڑ کر ان پر آکھڑا ہونا وغیرہ، مگر یہ بنی اسرائیل کے لیے تھے۔ 2۔ اِنِّيْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا : یہ بالکل اسی قسم کا الزام ہے جو کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ہے : ﴿اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۴۷ ]’’تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔‘‘ ہر زمانے میں باطل پرست ناقابل تردید دلائل سن کر حق پرستوں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔