قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
1۔ قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ ....: یعنی اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے، جن کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں، تب بھی تم کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیتے۔ اس شدید بخل کا نتیجہ ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کا بھی کسی کو نعمت عطا کرنا برداشت نہیں، نہ تمھیں یہ برداشت ہے کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر حسد و بخل کرتے ہو۔ یہ دونوں صفات بے حد قبیح ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۵۳ تا ۵۵) روح المعانی میں ہے کہ ماقبل سے ربط میں مختلف اقوال ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ 2۔ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا:’’ قَتَرَ يَقْتُرُ قَتْرًا وَ قُتُوْرًا‘‘ (ن، ض) خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل، حتیٰ کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی بخل کرے۔ اس میں انسان کی طبعی اور جبلی خصلت بیان فرمائی ہے، جو ہمیشہ سے اس میں پائی جاتی ہے اور جس سے چھٹکارا انھی اعمال کی بدولت ہو سکتا ہے جو ’’مردِ ہلوع‘‘ (تھڑدلا مرد) کے علاج کے لیے سورۂ معارج کی آیات (۱۹ تا ۳۵) میں بیان ہوئے ہیں۔