أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کر سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن (پڑھ)۔ بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔
1۔ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ....: شروع سورت سے توحید و رسالت اور آخرت کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات کے بعد اعمال کا ذکر فرمایا۔ (رازی) پچھلی آیات کے ساتھ ایک اور مناسبت یہ ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے نماز قائم کیجیے، یہ آپ کے لیے ان سے مقابلے کی قوت کا ذریعہ بنے گی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو نماز پڑھتے۔ [ أبوداؤد، التطوع، باب وقت قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل : ۱۳۱۶ ] اعمال میں سب سے افضل نماز ہے، کیونکہ کلمۂ اسلام کے بعد یہ مسلمان ہونے کی پہلی شرط اور علامت ہے (دیکھیے توبہ : ۵، ۱۱) اور اس میں دوسرے ارکان اسلام کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ شامل ہے۔ زکوٰۃ اس طرح کہ مالی منفعت قربان کیے بغیر آدمی نماز کے لیے جاہی نہیں سکتا، روزہ اس طرح کہ دورانِ نماز میں روزے کی تمام پابندیاں عائد ہوتی ہیں، حج اس طرح کہ قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی ہے اور کلمۂ اسلام تشہد میں شامل ہے اور نماز کا مغز یہ ہے کہ پوری دنیا سے تعلق توڑ کر ایک اللہ سے پوری طرح تعلق جوڑ لے۔ ان آیات میں اقامتِ صلاۃ کے حکم کے ساتھ اس کے پانچ اوقات بھی بیان فرمائے، یہ اوقات قولاً و فعلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں اور پوری امت مسلمہ چودہ صدیوں سے ان اوقات پر نماز پڑھتی آئی ہے۔ نمازوں کے اوقات کے لیے مزید دیکھیے سورۂ ہود (۱۱۴)، سورۂ روم (۱۷، ۱۸) اور سورۂ طٰہٰ(۱۳۰) تین نمازوں کا صراحت سے ذکر سورۂ نور (۵۸) میں ہے، لیکن نمازوں کے اوقات کے اول و آخر کی مکمل حد بندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور آپ کو جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھ کر سکھائی۔ [ دیکھیے بخاری، مواقیت الصلوٰۃ، باب مواقیت الصلوٰۃ و فضلھا : ۵۲۱۔ مسلم : ۶۱۳، ۶۱۴ ] 2۔ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ: قاموس میں ہے : ’’ دَلَكَتِ الشَّمْسُ اَيْ غَرَبَتْ أَوِ اصْفَرَّتْ أَوْ مَالَتْ أَوْ زَالَتْ عَنْ كَبِدِ السَّمَاءِ‘‘ یعنی ’’دَلَكَتِ الشَّمْسُ‘‘ کا معنی ہے کہ سورج غروب ہو گیا، یا زرد ہو گیا، یا مائل ہو گیا، یا آسمان کے وسط سے ڈھل گیا۔‘‘ اس میں تین نمازوں کا ذکر ہے، کیونکہ مشترک لفظ ایک سے زیادہ معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ سورج ڈھلنے کے وقت ظہر، زردی کی (غیر محسوس) ابتدا کے وقت عصر کی نماز ہے (پوری طرح زرد ہونے پر نماز مکروہ ہے) اور سورج غروب ہونے کے ساتھ مغرب کی نماز ہے۔ ’’غَسَقِ الَّيْلِ ‘‘ کا معنی شروع رات کا اندھیرا ہے۔ شفق غائب ہونے کے ساتھ اندھیرا مکمل ہوتے ہی عشاء کا وقت ہو جاتا ہے۔ ’’ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ ‘‘ (سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک) کا معنی تو یہ ہے کہ یہ تمام وقت مسلسل نماز قائم رکھو، مگر یہ اس لیے فرمایا کہ آدمی نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں ہو تو وہ نماز ہی میں مشغول شمار ہوتا ہے، گویا یہ تمام وقت نماز ہی میں گزرا۔ اس میں ہر وقت نماز کی طرف توجہ رکھنے کی ترغیب ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوْا فِيْ صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ )) [أبوداؤد، الصلاۃ، باب وقت العشاء الآخرۃ : ۴۲۲۔ ترمذي : ۳۳۰ ] ’’تم اس وقت تک نماز میں رہو گے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہو گے۔‘‘ پھر رات کی نیند کے وقفے کے بعد صبح کی نماز کا وقت ہے، اس لیے اسے الگ ذکر فرمایا۔ (نظم الدرر للبقاعی) 3۔ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : ’’ أَيْ وَأَقِمْ قُرْآنَ الْفَجْرِ ‘‘ یعنی فجر کی نماز قائم کر۔ یہاں نماز کو قرآن فرمایا، کیونکہ قرآن نماز کا اہم جز ہے اور یہاں جز بول کر کل مراد لیا ہے، جیسا کہ قیام یا ’’رَكْعَةٌ‘‘ یا ’’سَجْدَةٌ‘‘ سے پوری نماز مراد ہوتی ہے۔ یہاں نماز کو قرآن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی نماز میں قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے بہ نسبت دوسری نمازوں کے۔ 4۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا : ’’ مَشْهُوْدًا ‘‘ جس میں حاضر ہوا جائے، یعنی اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [دیکھیے بخاری، الأذان، باب فضل صلاۃ الفجر في جماعۃ : ۶۴۸ ] یہ معنی بھی ہے کہ رات بھر کے آرام کے بعد طبیعت قرآن پڑھنے اورسننے کے لیے حاضر ہوتی ہے۔