وَمَن كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا
اور جو اس میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور راستے سے بہت زیادہ بھٹکا ہوا ہوگا۔
1۔ وَ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖ اَعْمٰى ....: اس سے مراد دل کا اندھا ہونا ہے، کیونکہ دنیا میں تو آنکھیں مسلم و کافر دونوں کو دی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ﴾ [ الحج : ۴۶ ] ’’پس بے شک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ 2۔ وَ اَضَلُّ سَبِيْلًا: زیادہ گمراہ اس لیے کہ دنیا میں گمراہ کے راہِ راست پر آنے کی امید ہے، قیامت کو اس کا موقع نہیں ہو گا۔ 3۔ یہاں اندھے اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور دوسرے مقامات پر ان کے دیکھنے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ ﴾ [الکہف : ۵۳ ] ’’اور مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے۔‘‘ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ قیامت کے پچاس ہزار سال کے برابر دن میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، وہ قبروں سے اٹھتے وقت اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، بعدمیں دیکھنے، سننے اور بولنے کے مراحل سے بھی گزریں گے۔ ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تطبیق یہی ہے۔