وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا
اور ان میں سے جس کو تو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا لے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا کرلے آ اور اموال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور انھیں وعدے دے اور شیطان دھوکا دینے کے سوا انھیں وعدہ نہیں دیتا۔
1۔ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ ....: ’’ اسْتَفْزِزْ ‘‘ ’’فَزٌّ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی ہلکا و خفیف ہے۔ ’’رَجُلٌ فَزٌّ أَيْ خَفِيْفٌ‘‘ ہلکا آدمی، یعنی تو جسے اپنی آواز سے ہلکا اور بے وقعت بنا سکے بنا لے۔ شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ نے ترجمہ کیا ہے ’’اور بہکا جس کو بہکا سکے‘‘ کیونکہ آدمی ہلکا اور بے قدر و قیمت ہو کر ہی بہکتا ہے۔ 2۔ بِصَوْتِكَ : شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ آواز ہے جو اللہ کی نافرمانی کی دعوت دے، اس میں گانا بجانا، بدکاری اور ہر برے کام کی دعوت اور ترغیب شامل ہے۔ 3۔ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ ....: جلب کھینچ کرلانے کو کہتے ہیں اور اس شور کو بھی جس سے گھوڑے کو تیز دوڑانا مقصود ہو۔ ’’خَيْلٌ‘‘ گھوڑوں کی جماعت کو کہتے ہیں اور گھڑ سواروں کی جماعت کو بھی۔ ’’رَجِلٌ‘‘ (پیادہ) واحد ہے۔ (قاموس) مراد جنس ہے۔ 4۔ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ : اموال میں شیطان کی شراکت یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمایا جائے، یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے، مثلاً سود، رشوت، چوری ڈاکے اور دھوکے وغیرہ سے مال کمایا جائے اور اسے غیر اللہ کے نام پر یا بدکاری و بے حیائی اور نافرمانی کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اولاد میں شراکت یہ ہے کہ شیطان انھیں دین حنیف کی تعلیمات کے خلاف پرورش دلانے میں کامیاب ہو جائے، ان کے لیے زنا اور اللہ کی نافرمانی کے مواقع میسر کر دے، انھیں اپنے سلف صالحین سے متنفر کر دے، میاں بیوی کی صحبت کے وقت دونوں کو شیطان سے بچانے کی دعا مانگنا فراموش کروا دے، تاکہ پیدا ہونے والی اولاد میں اس کا حصہ ہو جائے، یا ان کے نام ایسے رکھوا دے جن سے ظاہر ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور نے عطا کیے ہیں۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبد العزیٰ، عبد شمس اور عبد وَدّ وغیرہ رکھتے تھے۔ ہمارے زمانے میں رسول بخش، حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی اور پیراں دتہ وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ مزید وہ آیات جن میں مذکور اشیاء میں شیطان کی مشارکت کا ذکر ہے وہ یہ ہیں سورۂ انعام ( ۱۳۶، ۱۳۸) اور سورۂ یونس (۵۴)۔ 5۔ وَعِدْهُمْ : یعنی انھیں جھوٹے وعدے دلا، مثلاً یہ کہ اگر شرک کرو گے تو یہ فائدہ ہو گا، سودی کاروبار سے یہ نفع ہو گا اور یہ کہ دنیا میں تمھیں مال و دولت ملی ہے، آخرت میں بھی ملے گی اور یہ کہ ابھی بہت وقت ہے عیش کر لو، پھر توبہ کر لینا وغیرہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو پانچ حکم دیے ہیں : ’’ اذْهَبْ ‘‘ ’’ اسْتَفْزِزْ ‘‘ ’’ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ ‘‘ ’’ شَارِكْهُمْ ‘‘ اور ’’ عِدْهُمْ ‘‘ یہ تمام احکام تہدید، یعنی ڈانٹنے کے لیے ہیں، جیسے فرمایا : ﴿اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۰ ] ’’جو چاہو کرو۔‘‘ یہ احکام تعمیل کے لیے نہیں ہیں، کیونکہ یہ سب گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ گناہ کا حکم نہیں دیتا۔ 6۔ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا : یعنی شیطان کے سب وعدے محض دھوکا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مفہوم کئی اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء(۱۲۰)، حدید (۱۴) اور ابراہیم (۲۲) اس سے پہلے شیطان کو مخاطب کر کے بات ہو رہی تھی، یہاں شیطان کو غائب کے صیغے سے ذکر کیا، یہ التفات شیطان کی تحقیر کے لیے ہے۔