قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا
کہہ پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔
1۔ قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ ....: آلوسی نے فرمایا، زعم ظن (یعنی گمان) کے قریب ہے، کبھی جس بات میں شک ہو اس پر بھی ’’زعم‘‘ بولا جاتا ہے۔ بعض اوقات کذب (غلط بیانی) کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور کبھی ثابت شدہ سچی بات پر بھی بول لیا جاتا ہے جس میں کوئی شک نہ ہو، جیسا کہ کئی احادیث میں ہے، ایسے تمام مقامات میں زعم کا معنی ’’قَالَ‘‘ ہو گا۔ زعم ان افعال میں سے ہے جو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ یہاں دونوں مفعول محذوف ہیں، یعنی ’’زَعَمْتُمُوْهُمْ آلِهَةً ‘‘ کہ ان لوگوں کو بلاؤ جنھیں تم نے معبود گمان کر رکھا ہے، یعنی فرشتے، جن، بزرگ، بت، غرض تمام وہ لوگ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور مشکلات میں انھیں پکارتے ہو اور انھیں اپنے معبود گمان کرتے اور حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہو، انھیں پکارو۔ 2۔ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِيْلًا: پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ تم سے ہٹا کر کسی اور کی طرف منتقل کر دینے کے مالک ہیں، پھر کیوں انھیں سجدہ کرتے اور مدد کے لیے پکارتے ہو؟ یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے، دیکھیے سورۂ انعام (۱۷، ۴۰،۴۱)، یونس (۱۰۷) اور سورۂ نمل(۶۲)۔