وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔
”النَّاسُ“ سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو خلوص دل سے ایمان لائے اور ایک ہی طرف کے ہو گئے اور اپنے کسی دنیوی نقصان کی پروا نہ کی، منافقین نے انھیں بے وقوف کہا اور اپنے آپ کو عقل مند، کیونکہ اپنے خیال میں انھوں نے دونوں طرف سے فائدہ اٹھایا اور اپنی دنیا کا نقصان نہ ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین ہی کو بے وقوف قرار دیا، کیونکہ ان کا نہ مسلمانوں کے ہاں کچھ اعتبار رہا نہ کفار کے ہاں اور وہ چند روزہ زندگی کے فائدے کے لیے ہمیشہ کی زندگی کا نقصان کر بیٹھے۔ فرمایا یہ ایسے بے وقوف ہیں جنھیں اپنی بے وقوفی کا بھی علم نہیں ۔ 2۔اس آیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ منافقین کو ان کے ایمان جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔