سورة الإسراء - آیت 50

قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے تم کسی قسم کے پتھر بن جاؤ، یا لوہا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً ....: مطلب یہ کہ مٹی میں تو پھر بھی نباتات کی صورت میں زندگی کے آثار نظر آ جاتے ہیں، تم کوئی ایسی چیز بن کر دیکھ لو جو کسی طرح بھی زندگی قبول نہ کر سکتی ہو، مثلاً پتھر، لوہا یا کوئی بھی مخلوق جس کا زندہ ہونا تمھارے دلوں میں ان سے بھی بڑی بات ہو، پھر بھی اللہ تعالیٰ تمھیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھا لے گا۔ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ : یعنی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا وہی تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا، کیونکہ پہلی بار کسی چیز کا پیدا کرنا مشکل اور دوبارہ آسان ہوتا ہے، تو پھر اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمھیں دوبارہ زندگی دے۔ (دیکھیے روم : ۱۹) جبکہ اس کے لیے پہلی اور دوسری مرتبہ پیدا کرنا دونوں یکساں آسان ہیں۔ فَسَيُنْغِضُوْنَ۠ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ ....: ’’ أَنْغَضَ يُنْغِضُ ‘‘ (افعال) کا معنی تعجب یا مذاق کے طور پر سر ہلانا ہے، یعنی لاجواب ہو کر پوچھیں گے، اچھا تو وہ قیامت کب ہو گی؟ آپ ان سے کہہ دیں کہ جب اس کا آنا یقینی ہے تو تمھارا یہ سوال بے کار ہے، جب اس نے آ کر ہی رہنا ہے تو چاہے وہ کتنی دور ہو اسے قریب ہی سمجھو اور اپنی نجات کی فکر کرو۔ اس کی مثال اس نالائق طالب علم کی ہے جسے معلوم ہو کہ امتحان لازماً ہونا ہے، مگر وہ اس کا ہونا اس لیے تسلیم نہ کرے یا اس کے لیے تیاری نہ کرے کہ اس کے منعقد ہونے کی تاریخ معلوم نہیں، یا اس لیے کہ وہ ابھی فوراً کیوں منعقد نہیں ہو رہا۔ ظاہر ہے یہ سراسر حماقت ہے۔