وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ’’اف‘‘ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔
1۔ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِيَّاهُ: پچھلی آیت میں شرک سے منع فرمانے کے بعد صرف اپنی عبادت کی تاکید کے لیے لفظ ’’ قَضٰى ‘‘ استعمال فرمایا، جس میں انتہائی تاکید پائی جاتی ہے، کیونکہ فیصلہ قطعی ہوتا ہے اور وہ بدلا نہیں جاتا، چنانچہ فرمایا ’’ قَضٰى ‘‘ یعنی قطعی حکم اور فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سو اکسی کی عبادت نہ کرو، یعنی صرف اس کے بندے بن کر رہو، غیبی قوتوں کا مالک صرف اس کو سمجھ کر اس سے مانگو۔ انتہائی درجے کی محبت اور خوف کے ساتھ انتہائی عاجزی صرف اس کے لیے اختیار کرو۔ تمھارے دل، زبان اور جسم کے ہر حصے کا اس طرح کا ہر فعل مثلاً قیام، سجدہ، رکوع اور قربانی بلکہ پوری زندگی ایسی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ 2۔ وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا : ’’ اِحْسَانًا ‘‘ امر’’ أَحْسِنُوْا‘‘ کا مصدر ہے، جو تاکید کے لیے ہے اور امر کی جگہ آتا ہے۔ اس کے ساتھ امر کا لفظ ذکر نہیں ہوتا مگر مراد امر تاکیدی ہوتا ہے، یعنی والدین کے ساتھ بہت نیکی کرو۔ ’’ اِمَّا ‘‘ اصل میں ’’ إِنْ مَا‘‘ ہے، ’’مَا‘‘ شرط کی تاکید کے لیے ہے، یعنی ’’اگر کبھی۔‘‘ ان آیات کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ دونوں فوت ہو چکے تھے، ان دونوں یا ایک کا بڑھاپے میں پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دینے کے باوجود اصل حکم ہر شخص کو ہے۔ ماں باپ خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انھیں جھڑکنا گناہ ہے، مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے، بلکہ بسااوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے، اس لیے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر صرف اپنی عبادت کی تاکید کے ساتھ والدین سے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۳۶) اور سورۂ بقرہ (۸۳) دوسرے مقامات پر واضح فرمایا کہ ان سے حسن سلوک لازم ہے، خواہ وہ کافر و مشرک ہوں، بلکہ اگرچہ شرک و کفر کی دعوت بھی دیتے ہوں۔ دیکھیے سورۂ لقمان (۱۵) اور سورۂ عنکبوت (۸) احادیث میں بھی والدین سے حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قِيْلَ مَنْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ !؟ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ)) [ مسلم، البر والصلۃ، باب رغم من أدرک أبویہ....:10؍2551] ’’اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔‘‘ پوچھا گیا : ’’یا رسول اللہ! کس کی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو، پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘ 4۔ ’’ عِنْدَكَ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم والدین کے پاس تھے اور ان کے محتاج تھے، اب وہ بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے تمھارے پاس اور تمھارے محتاج ہیں۔ چنانچہ انھیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہو، جو اکتاہٹ اور بے ادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے، پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ 5۔ قَوْلًا كَرِيْمًا: بعض اہلِ علم نے اس کی تفسیر میں قول کریم کی نقشہ کشی یوں فرمائی کہ ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے اور بعض نے فرمایا کہ بچپن میں جس طرح تمھارے پیشاب پاخانہ کو صاف کرتے وقت وہ کوئی کراہت محسوس نہ کرتے تھے، بلکہ محبت ہی سے پیش آتے تھے، اب تم بھی ان سے وہی سلوک کرو۔ (بغوی)