فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا
پھر جب ان دونوں میں سے پہلی کا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے سخت لڑائی والے کچھ بندے بھیجے، پس وہ گھروں کے اندر گھس گئے اور یہ ایساوعدہ تھا جو (پورا) کیا ہوا تھا۔
1۔ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا ....: اس دو مرتبہ کے فساد اور اس کی سزا کی تعیین کا کوئی مضبوط اور قابل اعتماد ذریعہ ہمارے پاس قرآن و سنت کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ تاریخ خصوصاً قبل مسیح کی تاریخ کی نہ کوئی سند ہے نہ اس کے ثبوت کی کوئی اور پختہ دلیل، رہا ان کا فساد تو اس کا شمار ہی نہیں۔ قرآن مجید میں ان کے مذکور فسادات ہی دیکھ لیں، سمندر سے پار ہوتے ہی معبود بنانے کا مطالبہ، پھر سامری کا بچھڑا بنانا اور اس کی عبادت، پھر موسیٰ علیہ السلام سے مسلسل مختلف تقاضے، حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنے کو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی شرط قرار دے دیا۔ پھر جہاد کے لیے نکلنے کی دعوت پر ﴿فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ﴾ [ المائدۃ : ۲۴ ] کہنا، پھر ان کا سود کھانا، رشوت لینا، سبت (ہفتے کے دن) کی تعظیم کے بجائے حیلے کے ساتھ اس میں شکار کرنا۔ ہمسایہ قوموں کے اثر سے بت پرستی اور زنا کا عام ہونا، کتاب اللہ میں تحریف کرنا، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا، اپنے بزرگوں اور نبیوں کو خدا کا درجہ دینا، احبار و رہبان کی تقلید کرنا، احبار و رہبان کا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانا اور صحیح دین سے لوگوں کو ہٹانا، اللہ کے نبیوں کو اور نیکی کا حکم دینے والے صالحین کو قتل کرنا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود ان پر ایمان نہ لانا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے در پے ہونا۔ غرض ان کے فسادات کا کوئی شمار ہی نہیں، اسی طرح ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا مسلسل برستے رہنا بھی صرف دو دفعہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک بار بار بدترین عذابوں کا نشانہ بننا قرآن مجید میں مذکور ہے، فرمایا : ﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ﴾ [ الأعراف : ۱۶۷ ] ’’اور جب تیرے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ وہ قیامت کے دن تک ان پر ایسا آدمی ضرور بھیجتا رہے گا جو انھیں برا عذاب دے۔‘‘ اس لیے ان دو مرتبہ کی تعیین ایک مشکل کام ہے۔ مفسرین کا اس تعیین میں اختلاف بھی اس کی دلیل ہے۔ کوئی بابل کے بادشاہ سنحاریب اور اس کے جنگجو ساتھیوں کو اس کا مصداق قرار دیتا ہے، کوئی عمالقہ کو، کوئی بخت نصر کو، بعض جدید مفسرین نے یہاں بائبل سے لمبی چوڑی عبارتیں نقل کیں اور ان میں مذکور بعض واقعات اور شخصیتوں کو اس کا مصداق قرار دیا، حالانکہ بائبل کی کسی بات پر یقین جائز نہیں، سوائے ان باتوں کے جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرمایا : (( لاَ تُصَدِّقُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا : ﴿اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَا اُنْزِلَ ﴾ البقرة : ۱۳۶ )) [ بخاري، الشہادات، باب لا یسأل أہل الشرک....، قبل ح : ۲۶۸۵، تعلیقاً عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو، بلکہ یہ کہہ لیا کرو کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ اس نے نازل کیا سب پر ایمان لائے۔‘‘ اسی باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : (( يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ ! كَيْفَ تَسْأَلُوْنَ أَهْلَ الْكِتَابِ ؟ وَكِتَابُكُمُ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلٰی نَبِيِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللّٰهِ تَقْرَءُوْنَهُ لَمْ يُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللّٰهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ وَغَيَّرُوْا بِأَيْدِيْهِمُ الْكِتَابَ فَقَالُوْا : ﴿هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا ﴾ [البقرة : ۷۹] أَفَلاَ يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِهِمْ؟ وَلَا وَاللّٰهِ ! مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلاً قَطُّ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ )) [ بخاری، الشھادات، باب لا یسأل أھل الشرک عن الشھادۃ وغیرھا : ۲۶۸۵ ] ’’اے مسلمانو کی جماعت! تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو، حالانکہ تمھاری کتاب جو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی گئی وہ تمام خبروں میں سے اللہ کی طرف سے نئی ہے۔ تم اسے ایسی حالت میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتا دیا ہے کہ اللہ نے جو کچھ لکھا تھا اہل کتاب نے اسے بدل دیا اور اپنے ہاتھوں سے کتاب کو تبدیل کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت خریدیں۔ کیا وہ علم جو تمھارے پاس آیا ہے تمھیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا ؟ اور نہیں، قسم ہے اللہ کی! ہم نے ان میں سے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ تم سے اس کے متعلق سوال کرتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘ اب ایسی بات جسے سچا کہا ہی نہیں جا سکتا اس پر یقین کیسے ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تعیین نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ قرآن مجید محض تاریخ کی کتاب نہیں، نہ ہر جگہ اس میں واقعات پوری ترتیب اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں بلکہ اس میں واقعات کا صرف وہی حصہ بیان ہوتا ہے جو نصیحت وعبرت سے تعلق رکھتا ہے، تاہم اگر کسی معتبر ذریعے سے اس کی تفصیل معلوم ہو جائے تو نصیحت و عبرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 2۔ قرآن مجید کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ارضِ مقدس میں داخلے کے لیے جہاد کا حکم دیا اور بتایا کہ اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے تمھاری ملکیت بنانا طے فرما دیا ہے، مگر غلامی کی خوگر اس نسل نے نہایت گستاخانہ الفاظ میں جہاد کے لیے نکلنے سے انکار کر دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۲۰ تا ۲۶) اس کے نتیجے میں وہ چالیس سال وہیں صحرا میں سرگرداں رہے۔ موسیٰ علیہ السلام اس دوران وفات پا گئے، اللہ کے اس جلیل القدر پیغمبر کو ارضِ مقدس میں جانے کی اس قدر حسرت تھی کہ انھوں نے وفات کے وقت دعا کی کہ یا اللہ! مجھے ارضِ مقدس سے اتنا قریب کر دے کہ پتھر پھینکنے سے اس زمین میں پہنچ جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں وہاں ہوتا تو تمھیں ان کی قبر راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا۔‘‘ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسٰی و ذکرہ بعد : ۳۴۰۷ ] جب وہ نسل جو ان ہوئی جو آزادی کے دور میں پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے ارضِ شام اور بیت المقدس کو فتح کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں آزادی کے ساتھ حکومت کی نعمت بھی عطا فرمائی۔ یہ دور کتنے عرصے پر محیط تھا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے دوری اور دنیا کی محبت کی بنا پر وہ آپس میں لڑنے لگے، اللہ تعالیٰ کے احکام کو پس پشت پھینک دیا اور اس قدر فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے وہ سخت جنگ والے بندے بھیجے جن کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ ان کے گھروں کے اندر گھس گئے اور ان کے گھروں، زمینوں، عورتوں اور بچوں پر قابض ہو گئے اور انھیں بیت المقدس اور ارضِ شام سے نکال باہر کیا، بیت المقدس میں داخل ہو کر اس کی جتنی بے حرمتی کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ یہ پہلے فساد کی سزا تھی۔ اس وقت ان حملہ آوروں کا بادشاہ کون تھا، اللہ تعالیٰ نے واضح نہیں فرمایا۔ اس کے ایک عرصہ بعد بنی اسرائیل کے کچھ سرداروں نے ارض مقدس اور اپنے اسیروں کی واپسی کے لیے وقت کے نبی سے کوئی بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طالوت مقرر کیے گئے۔ یہ مفصل واقعہ سورۂ بقرہ (۲۴۶ تا ۲۵۱) اور اس کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اس وقت کفار کا بادشاہ جالوت تھا، ممکن ہے بنی اسرائیل پر عذاب کا کوڑا بھی اسی کے ہاتھوں برسا ہو۔ بہرحال کفار کو شکست ہوئی اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا۔ ارض مقدس پر پھر بنی اسرائیل قابض ہو گئے اور اللہ کا دین پھر غالب ہو گیا۔ طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام نے جہاد کے ذریعے سے اس سلطنت کو مزید وسیع کیا، ان کے بعد سلیمان علیہ السلام کو ایسی حکومت عطا ہوئی جو ان کی دعا کے مطابق ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ اس کی تفصیل سورۂ نمل (۱۵ تا ۴۴)، سورۂ ص (۱۷ تا ۴۰)، سورۂ انبیاء (۷۷ تا ۸۲ ) اور سورۂ سبا (۱۰ تا ۱۴) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب آیات زیر تفسیر آیت : ﴿ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا ﴾ کی تفسیر ہیں۔ ان کی وفات کے بعد پھر اخلاقی زوال اور دنیا پرستی کا دور شروع ہوا، حتیٰ کہ کئی انبیاء وصلحاء، جو گناہ سے منع کرتے تھے، شہید کر دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ختم ہو گیا، مشرک قوموں کی ہمسائیگی اور دوستی کے نتیجے میں شرک، جادو، قتل ناحق، زنا، ڈاکے وغیرہ پھیل گئے اور اللہ کی حدود معطل ہو گئیں، حتیٰ کہ مسیح علیہ السلام کو بھی انھوں نے اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا۔ اس سے پچھلے حاشیے میں بھی کئی خرابیاں ذکر ہوئی ہیں۔ وہ آپس میں لڑ کر کئی فرقوں اور کئی سلطنتوں میں بٹ گئے۔ انبیاء کو قتل کرنے اور مسیح علیہ السلام کو اپنے خیال میں سولی دینے کے بعد پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سخت ترین کوڑا برسا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ ان پر اللہ کے سخت لڑاکا لوگ حملہ آور ہوئے اور ان سے وہ سلوک کیا جو اس سے اگلی آیت ’’فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ‘‘ میں مذکور ہے۔