وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں فیصلہ سنا دیا تھا کہ بے شک تم زمین میں ضرور دو بار فساد کرو گے اور بے شک تم ضرور سرکشی کرو گے، بہت بڑی سرکشی۔
وَ قَضَيْنَا اِلٰى بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ ....: ’’ لَتُفْسِدُنَّ ‘‘ اور ’’ لَتَعْلُنَّ ‘‘ اصل میں ’’ لَتُفْسِدُوْنَنَّ ‘‘ اور ’’لَتَعْلُوُوْنَنَّ‘‘ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کی طرح محدود نہیں کہ اسے صرف گزشتہ اور موجودہ باتوں ہی کا علم ہو، بلکہ اسے آئندہ کسی بھی وقت ہونے والی ہر بات کا اسی طرح علم ہے جس طرح گزشتہ یا موجودہ کا پوری طرح علم ہے اور ہر گزشتہ یا آنے والا کام اس کے کمال علم و حکمت کے مطابق طے شدہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی محکم و مضبوط تدبیر و تقدیر کی وجہ سے کوئی خرابی، کوئی حادثہ پیش نہیں آتا۔ اسی تقدیر کے مطابق انسان کو کچھ اختیار دے کر آزمایا گیا ہے اور وہ اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرے گا، اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی پہلے سے علم ہے ۔ اس علم کے مطابق اس نے بنی اسرائیل کو تورات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو پہلے بتانے کا اور ہماری امت کو یہ خبر دینے کا کیا فائدہ؟ تو جواب یہ ہے کہ مقصد انھیں بتانے کا اور ہمیں اس کی خبر دینے کا یہ ہے کہ فساد اور سرکشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، تاکہ ہر شخص اس سے بچنے کی پوری جدوجہد کرے۔ ’’ الْاَرْضِ ‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے اور لام عہد کا ہے۔ پچھلی تفسیری آیات یعنی سورۂ انبیاء (۸۱) میں مذکور ’’ الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ‘‘ سے بھی شام ہی مراد ہے، یا مراد ساری زمین ہے اور یہودیوں کا فساد اور ان کو ملنے والی سزا شام میں بھی واقع ہوئی اور دوسرے علاقوں میں بھی۔