سورة النحل - آیت 125

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ : ’’ اُدْعُ ‘‘ کا مفعول یہاں مذکور نہیں کہ کسے دعوت دے، اس لیے مراد عام ہو گا، یعنی غیر مسلم اور مسلم سب کو دعوت دے۔ یا اسے فعل لازم کے قائم مقام قرار دیا جائے، اس وقت مراد یہ ہو گی کہ ہمیشہ دعوت دیتا رہ۔ رب کے راستے سے مراد اسلام اور اس کی تفصیلات ہیں۔ ’’ بِالْحِكْمَةِ ‘‘ ’’حِكْمَةٌ‘‘ کا لفظ موقع کے مطابق کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، چنانچہ قاموس میں اس کے یہ معانی لکھے ہیں:’’ اَلْعَدْلُ وَالْعِلْمُ وَالْحِلْمُ وَالنُّبُوَّةُ وَالْقُرْآنُ وَالْإِنْجِيْلُ‘‘ اور لکھا ہے کہ ’’أَحْكَمَهُ‘‘ کا معنی ’’ أَتْقَنَهُ ‘‘ ہے، یعنی اس نے اسے خوب پختہ اور مضبوط کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دو چیزوں سے خالی نہیں ہونی چاہیے، ان میں سے ایک حکمت ہے، یعنی ایسی محکم اور پختہ دلیل جو حقیقت کے عین مطابق ہو، جس میں کوئی غلطی نہ ہو اور مخاطب کے نزدیک بھی مسلم ہو، خواہ وہ عناد کی وجہ سے اسے نہ مانے۔ اسے برہان بھی کہتے ہیں : ﴿ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۱ ] ’’کہہ دے لاؤ اپنی دلیل، اگر تم سچے ہو۔‘‘ اس لیے حکمت کو دلیل برہانی کہتے ہیں۔ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ : ’’اچھی نصیحت‘‘ سے مراد ایسی بات ہے جو مخاطب کے دل کو نیکی کے عمل کے لیے نرم کرے، یا بدی کے خلاف ابھار دے، ترغیب کے ذریعے سے یا ترہیب (ڈرانے) کے ساتھ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِيْ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا ﴾ [ النساء : ۶۳ ] ’’سو تو ان سے دھیان ہٹا لے اور انھیں وعظ (نصیحت) کر اور ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔‘‘ اسے دلیل خطابی کہتے ہیں۔ دعوت کے اس اسلوب میں حسن و خوبی اور نرمی و ملائمت کو ملحوظ رکھنا اور بدزبانی و سخت کلامی سے پرہیز لازم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو حکم دیا : ﴿ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۴۴ ] ’’پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔‘‘ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ: دعوت کے دوران میں اگر حکمت اور موعظۂ حسنہ کے باوجود مخاطب بحث اور مجادلے (جھگڑے) پر اتر آئیں تو آپ بھی ان سے مجادلہ کریں، کیونکہ پھر اس کے بغیر چارہ نہیں، مگر یہ ہر حال میں احسن (زیادہ اچھا) ہونا چاہیے۔ کس سے احسن؟ جواب یہ ہے کہ سب سے بہتر یا کم از کم ان کے مجادلے سے بہتر طریقے کے ساتھ ہو، کیونکہ باب مفاعلہ میں دو فریق ہوتے ہیں، یہاں ایک تم ہو اور ایک وہ، اس لیے احسن کا مطلب یہ ہو گا ان کے طریقے سے بہتر، جس میں گالی گلوچ اور ذاتی حملے وغیرہ نہ ہوں، بلکہ ایسی بات ہو جس سے وہ لاجواب ہو جائیں۔ انبیاء اور ان کے حقیقی وارث علماء کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے خاص طور پر نوازتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی والد کو حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ دعوت (دیکھیے مریم : ۴۲)، پھر بت توڑ کر بت پرستوں کے ساتھ بحث میں ان کو لاجواب کرنا (دیکھیے انبیاء : ۵۱ تا ۶۸)، پھر سورج، چاند اور ستاروں کے پوجنے والوں کو بحث میں لاجواب کرنا (دیکھیے انعام : ۷۶ تا ۸۳)، پھر بادشاہِ وقت کو رب ہونے کے دعویٰ میں لاجواب کرنا (دیکھیے بقرہ : ۲۵۸) اور نوح علیہ السلام کی قوم کا مجادلہ و بحث میں لاجواب ہو کر عذاب لانے کا مطالبہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (دیکھیے ہود : ۳۲) موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے مکالمے بھی اس کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ قرآن مجید مشرکین اور اہلِ کتاب سے مجادلۂ احسن پر مشتمل آیات سے بھرا پڑا ہے، بلکہ یہ قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں سے ایک ہے۔ دیکھیے ’’الفوز الکبیر‘‘ از شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ۔ 4۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اس قسم کی آیات مکی سورتوں میں ہیں، اس لیے یہ جہاد کے احکام کے ساتھ منسوخ ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ احکام اب بھی مؤثر ہیں اور اگر کوئی شخص حکمت، موعظۂ حسنہ اور مجادلۂ احسن کے بعد بھی نہ مانے تو اس کے لیے جہاد کا استثنا مکی سورتوں ہی میں موجود ہے۔ چنانچہ سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَا تُجَادِلُوْا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ﴾ [ العنکبوت : ۴۶ ] ’’اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، مگر وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔‘‘ ظاہر ہے کہ مجادلۂ احسن کے بعد بھی ظلم پر قائم رہنے والوں کے لیے جہاد کے سوا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ یہ ایک فطری حقیقت ہے جیسا کہ فِند زِمّانی نے کہا ہے: فَلَمَّا صَرَّحَ الشَّرُّ وَأَمْسٰي وَهُوَ عُرْيَانُ وَلَمْ يَبْقَ سِوَي الْعُدْوَانِ دِنَّاهُمْ كَمَا دَانُوْا ’’پھر جب لڑائی بالکل ظاہر ہو گئی اور ننگی ہو کر سامنے آ گئی اور زیادتی کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ہم نے بھی بدلے میں ان سے وہی کیا جو انھوں نے کیا تھا۔‘‘ بلکہ اس آیت سے اگلی آیت میں بھی جہاد کا ذکر موجود ہے، صرف غور کی ضرورت ہے۔ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ ....: اس آیت کے فوائد میں سے دو فائدے زیادہ ظاہر ہیں، ایک تو یہ کہ آپ کسی شخص کے ایمان نہ لانے پر اسے دعوت دینا ترک نہ کریں، آپ کو علم نہیں، ہو سکتا ہے وہ ان خوش نصیبوں میں سے ہو جنھیں ہدایت نصیب ہونی ہے، یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا ’’ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ‘‘ (بے شک تیرا رب ہی اسے زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے بھٹکا ہوا ہے) تو آگے بظاہر اتنا ہی کہنا کافی تھا ’’ بِالْمُهْتَدِيْنَ ‘‘ (اور ہدایت پانے والوں کو بھی) مگر اللہ تعالیٰ نے ’’ وَ هُوَ اَعْلَمُ ‘‘ کو دوبارہ ذکر فرمایا۔ مقصد یہ ہے کہ کافر لوگ بے شک اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور مسلمانوں کو گمراہ سمجھتے رہیں، مگر اصل گمراہ کون ہے اور اصل ہدایت یافتہ کون ہے، یہ علم تیرے رب ہی کے پاس ہے۔