وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بے شک وہ آخرت میں بھی یقیناً نیک لوگوں سے ہے۔
1۔ وَ اٰتَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً : یعنی دنیا میں حیاتِ طیبہ کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ انھیں عطا فرمائیں، مثلاً دین حق کی ہدایت، نبوت کی نعمت، صالح اولاد، سیرت حسنہ، وافر مال و دولت اور سچی ناموری وغیرہ۔ 2۔ وَ اِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ : خود ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی : ﴿ وَ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۸۳ ] ’’مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ یوسف علیہ السلام نے بھی یہی دعا کی تھی : ﴿ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۱ ] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ 3۔ معلوم ہوا کہ نیک ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، مگر قیامت کو صالحین کا ساتھ ملنا ایک مزید نعمت ہے، اس لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری الفاظ یہی تھے: (( اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَأَلْحِقْنِيْ بِالرَّفِيْقِ الْأَعْلٰی)) [ترمذی، أبواب الدعوات، باب : ۳۴۹۶۔ ابن ماجہ : ۱۶۱۹۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۶ ؍۱، ۶۴۲، ح : ۲۷۷۵ ] ’’اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھے سب سے اونچے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔‘‘