مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔
1۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى : لفظ ’’ مَنْ ‘‘ (جو بھی) میں مرد اور عورت دونوں آ جاتے ہیں، مگر پھر دونوں کا خاص الگ الگ ذکر فرمایا، تاکہ نہ عورتیں اپنے آپ کو کمتر یا محروم سمجھیں، نہ کوئی اور انھیں ایسا خیال کرے۔ اسلام کے سوا کہیں عورت کو یہ عزت نہیں ملی۔ 2۔ حَيٰوةً طَيِّبَةً: پاکیزہ زندگی میں حلال روزی، قناعت (اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اسی پر خوش رہنا)، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کا غنی ہونا، اللہ کی محبت، ایمان کی لذت سبھی چیزیں شامل ہیں، جو ایمان اور عمل صالح کی بدولت نصیب ہوتی ہیں، ایمان یا عمل صالح یا دونوں سے محروم لوگوں کو یہ چیزیں کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ اور چین سے گزرے گی۔ مہائمی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایسا شخص دنیا میں اپنے عمل سے ایسی لذت پاتا ہے جو مال و جاہ کی لذت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی قسمت پر راضی کر کے اسے قناعت عطا فرما دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مال بچا بچا کر رکھنے اور بڑھانے کی حرص کم ہو جاتی ہے۔ کافر کی زندگی مال وجاہ کے باوجود خوشگوار نہیں ہوتی، کیونکہ اس کی حرص اور دولت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف دونوں بڑھتے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کو آخرت میں اس سے بھی بہت بہتر اجر بدلے میں دیا جائے گا۔ چنانچہ ان سے یہ نہیں کہا جائے گا : ﴿اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا ﴾ [ الأحقاف : ۲۰ ] ’’تم اپنے اچھے اعمال کا بدلہ اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے۔‘‘ بلکہ ان کے ادنیٰ اعمال بھی مکمل کرکے اعلیٰ کے ساتھ ملا دیے جائیں گے۔