وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اپنی قسموں کو اپنے درمیان فریب کا ذریعہ نہ بناؤ، (ایسا نہ ہو) کہ کوئی قدم اپنے جمنے کے بعد پھسل جائے اور تم برائی کا مزہ چکھو، اس کے بدلے جو تم نے اللہ کی راہ سے روکا اور تمھارے لیے بہت بڑا عذاب ہو۔
1۔ وَ لَا تَتَّخِذُوْا اَيْمَانَكُمْ....: یعنی ایسا نہ ہو کہ تمھاری دھوکا دہی اور بدعہدی دیکھ کر کوئی شخص مرتد ہو جائے، یا عہد توڑنے والا شخص خود کفر میں مبتلا ہو جائے۔ زمخشری نے فرمایا کہ ’’ قَدَمٌ‘‘ کو واحد اور نکرہ اس لیے رکھا کہ بدعہدی کے نتیجے میں ایک شخص کا قدم پھسلنا اور اسلام سے دور ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات ہے، کجا یہ کہ اس حرکت سے بہت سے لوگ مرتد ہو جائیں۔ پہلے ’’ تَتَّخِذُوْا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ ‘‘ میں قسم کھا کر دھوکا دینے کا سبب بیان فرمایا، تو اس آیت میں’’ لَا تَتَّخِذُوْا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا ‘‘ فرما کر اس کا برا نتیجہ بیان فرمایا۔ 2۔ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اور تم لوگوں کو اسلام سے روکنے کا ذریعہ بن جاؤ اور تم پر دنیا ہی میں اس کا وبال آ جائے۔ 3۔ وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ: اور پھر آخرت کے عذاب عظیم میں مبتلا کر دیے جاؤ۔ مطلب یہ کہ اسلام کو بدنام نہ کرو کہ ایمان لانے والے شک میں پڑ جائیں، جس کا گناہ تم پر پڑے گا۔ (موضح)