الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
1۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: حمد کا معنی کسی خوبی کی وجہ سے تعریف ہے۔ اس پر الف لام استغراق کا ہے جس سے مراد حمد کے تمام افراد ہیں ، یعنی جو تعریف بھی ہے اللہ ہی کی ہے، نہ کسی دوسرے خود ساختہ معبود کی نہ کسی مخلوق کی، کیونکہ مخلوق میں اگر تعریف کے لائق کوئی خوبی ہے تو وہ اسی کی پیدا کردہ ہے۔ 2۔لفظ ’’اللّٰہ‘‘ چونکہ ذاتی نام ہے، اس لیے اس میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات آ جاتے ہیں ، وہ ننانوے اسماء و صفات بھی جن کا ذکر حدیث میں ہے اور وہ بھی جو ان کے علاوہ ہیں ، خواہ وہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھائے ہیں یا ان کا علم صرف اپنے پاس رکھا ہے۔ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد وہ ذات گرامی ہے جو نبی بھی ہے رسول بھی، شاہد، مبشر اور نذیر بھی، داعی الی اللہ اور سراج منیر بھی، ماحی اور عاقب بھی، خاتم النّبیین اور سید ولد آدم بھی، غرض اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ذاتی نام) میں آپ کے تمام نام اور تمام صفات آ جاتی ہیں ، اسی طرح لفظ ’’اللہ‘‘ علم (ذاتی نام) ہونے کی وجہ سے تمام اسماء و صفات کا جامع ہے، اس لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی، یعنی سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ وہ تمام صفات کمال کا جامع ہے اور ہر صفت پر اس کی حمد لازم ہے۔ 3۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ میں کئی عموم ہیں اور ایک خصوص ہے۔ ’’ اَلْحَمْدُ ‘‘ میں الف لام استغراق کا ہونے کی وجہ سے کئی قسم کا عموم ہے اور ’’ لِلّٰهِ ‘‘ میں ایک خصوص ہے، وہ یہ کہ اس میں لام اختصاص کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حمد اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ حمد کے عموم میں فاعل کا بھی عموم ہے کہ ہر حمد کرنے والا درحقیقت اللہ ہی کی تعریف کرتا ہے، خواہ وہ خود رب العالمین ہو یا انسان یا جن یا فرشتہ یا کوئی بھی مخلوق ہو۔ ایک مقام پر فرمایا : ﴿وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ﴾ [ بنی إسرائیل : ۴۴ ] ’’جو بھی شے ہے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح حمد کے عموم میں مکان (جگہ) کا بھی عموم ہے، یعنی وہ کسی بھی جگہ میں ہو، زمین میں ہو یا آسمان میں ، یا ان کے درمیان ہو یا عرش پر، فرمایا : ﴿وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ [ الروم : ۱۸ ] یعنی آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہے۔ اسی طرح زمان کا بھی عموم ہے، یعنی وہ حمد دن میں ہو یا رات میں ، ماضی میں ہو یا حال میں یا مستقبل میں ، دنیا میں ہو یا آخرت میں ، سب کی سب اللہ کے لیے خاص ہے، فرمایا : ﴿وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ﴾ [ القصص : ۷۰ ] ’’اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کے لیے دنیا اور آخرت میں سب تعریف ہے۔‘‘ اس طرح ’’ اَلْحَمْدُ ‘‘ میں خود حمد کا بھی عموم ہے، یعنی وہ حمد کسی بھی لفظ کے ساتھ ہو یا کسی بھی زبان میں ، بلند آواز سے ہو یا آہستہ، دل سے ہو یا زبان سے یا دوسرے اعضاء کے ساتھ، غرض تعریف کوئی بھی ہو صرف اکیلے اللہ کے لیے خاص ہے، کسی دوسرے میں کوئی خوبی یا قابل تعریف بات ہے تو وہ اس کی اپنی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کر دہ ہے، اس لیے اس کی وجہ سے اس کی تعریف بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے۔ 4۔ بعض اہل علم نے قرآن مجید کے چار حصے کیے ہیں ، ہر حصہ ’’ اَلْحَمْدُ ‘‘سے شروع ہوتا ہے۔ پہلا حصہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ ’’سورۂ فاتحہ‘‘سے شروع ہوتا ہے، دوسرا ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ﴾ سورۂ انعام سے، تیسرا ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ﴾ سورۂ کہف سے اور چوتھا ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ﴾ سورۂ سبا سے۔ 5۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ ایسا مبارک کلمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا آغاز اس سے ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ کی ابتدا اس سے کرتے تھے۔ (مسلم : ۴۵؍۸۶۸) کھانا کھانے کے بعد اور چھینک آنے پر اللہ کی حمد کرتے تھے۔ (بخاری : ۵۴۵۸، ۶۲۲۴) سوتے وقت بستر پر آ کر یہ دعا پڑھتے: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَ آوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ)) ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا اور ہمیں کافی ہو گیا اور ہمیں ٹھکانا دیا، کیونکہ کتنے ہی لوگ ہیں جنھیں نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی ٹھکانا دینے والا۔‘‘ [ مسلم، الذکر والدعاء، باب الدعاء عند النوم : ۲۷۱۵، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] صبح اٹھتے وقت یہ دعا پڑھتے : (( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَحْيَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَ اِلَيْهِ النُّشُوْرُ ))’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘ [ بخاری، الدعوات، باب وضع الید تحت الخد الیمنٰی : ۶۳۱۴، عن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ] قیامت کے دن لوگ قبروں سے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے نکلیں گے، فرمایا : ﴿يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ﴾ [ بنی إسرائیل : ۵۲] ’’جس دن وہ تمھیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے چلے آؤ گے۔‘‘ اور جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ کی حمد کریں گے، فرمایا : ﴿وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ﴾ [ الأعراف : ۴۴] ’’اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔‘‘ اور جنت میں ان کی گفتگو کا اختتام بھی اسی پر ہوا کرے گا، فرمایا : ﴿دَعْوٰىهُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [ یونس : ۱۰ ] ’’ان کی دعا ان (جنتوں ) میں یہ ہو گی ’’پاک ہے تو اے اللہ!‘‘ اور ان کی آپس کی دعا ان میں سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہو گا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) 6۔ کلمہ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ ایک عظیم الشان حقیقت کا اظہار بھی ہے، کلمۂ شکر بھی اور بہترین مکمل دعا بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور ’’الحمد للّٰہ‘‘ میزان کو بھر دیتا ہے۔‘‘ [ مسلم، الطہارۃ، باب فضل الوضوء : ۲۲۳، عن أبی مالک الأشعری رضی اللّٰہ عنہ ] تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر عبادت کا اصل مقصود اسے پکارنا اور اس سے مانگنا ہے، جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ )) ’’پکارنا ہی عبادت ہے۔‘‘ [ ترمذی، الدعوات، باب منہ .... : ۳۳۷۲، و صححہ الألبانی ] انسان کی ہر عبادت: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، غرض زندگی کا ہر لمحہ اس کے حکم کے مطابق غلام بن کر گزارنا اس سے مانگنے ہی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان میں سے بہترین صورت اس کی تعریف کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا ہے، اس پر وہ مزید نعمتوں سے نوازتا ہے، فرمایا : ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ﴾ [ إبراہیم : ۷ ] ’’بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمہیں زیادہ دوں گا۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ] ’’سب سے بہتر ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمد للہ ہے۔‘‘ [ ترمذی، الدعوات، باب ما جاء أن دعوۃ المسلم مستجابۃ : ۳۳۸۳، عن جابر رضی اللّٰہ عنہ ۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۴۹۷ ] ایک عرب شاعر نے اپنے ممدوح کے متعلق کہا ہے: اِذَا أَثْنٰي عَلَيْكَ الْمَرْأُ يَوْمًا كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ ’’جب کوئی شخص کسی دن تمھاری تعریف کرتا ہے تو اسے اس کے سوال کرنے سے تعریف ہی کافی ہو جاتی ہے۔‘‘۔ جب ایک سخی شخص جو مخلوق ہے، صرف تعریف سن کر نواز دیتا ہے، صاف لفظوں میں سوال کا انتظار نہیں کرتا تو رب العالمین جو جواد بھی ہے، ماجد بھی، اپنی حمد پر کیوں نہیں نوازے گا۔ خصوصاً جب اس سے بڑھ کر اپنی تعریف سن کر خوش ہونے والا کوئی نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسا کوئی نہیں جسے اللہ سے زیادہ (اپنی) تعریف پسند ہو، اس لیے اس نے خود اپنی تعریف کی ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قول اللہ عزوجل : ﴿قل إنما حرم ربی الفواحش....﴾ : ۴۶۳۷، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] 7۔ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: ’’رَبِّ ‘‘ کا معنی ہے سردار جس کی اطاعت ہوتی ہو اور مالک اور پرورش کرنے والا۔ یہ ’’ رَبَّ يَرُبُّ (ن) ‘‘ (پرورش کرنا) میں سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے، یا مصدر ہے جو مبالغہ کے لیے اسم فاعل کی جگہ استعمال ہوا ہے، جیسے ’’زَيْدٌ عَدْلٌ‘‘ ’’زَيْدٌ عَادِلٌ‘‘ کی جگہ استعمال ہوتا ہے، یعنی زید اتنا عادل ہے کہ اس کا وجود ہی عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ میں یہ تینوں صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں ، اس سے بڑا سید کوئی نہیں ، وہی سب کا مالک ہے اور ہر ایک کو پیدائش سے کمال تک پہنچانے والا اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے والا بھی وہی ہے، گویا وہ ذات پاک سراپا پرورش ہے۔ 8۔ ’’ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ ’’اَلْعَالَمُ‘‘ کی جمع ہے، جہان۔ ’’اَلْعَالَمُ‘‘ جمع ہے جس کا واحد نہیں ، جیسے ’’قَوْمٌ، رَهْطٌ، نَاسٌ‘‘ وغیرہ۔ معنی اس کا ہے : ’’ مَا يُعْلَمُ بِهِ الشَّيْءُ‘‘ جس کے ذریعے سے کسی چیز کا علم حاصل ہو، جیسا کہ ’’خَاتَمٌ‘‘ کا معنی ہے : ’’مَا يُخْتَمُ بِهِ‘‘ جس کے ساتھ مہر لگائی جائے۔ عرب یہ وزن آلہ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جہان کو عالم اس لیے کہتے ہیں کہ کوئی بھی مخلوق ہو اس کے ذریعے سے خالق کا علم حاصل ہوتا ہے کہ اسے پیدا کرنے والا موجود ہے۔ ’’الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ کو جمع اس لیے ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلو ق ایک الگ جہان ہے، مثلاً عالم انس، عالم جن، عالم نبات، عالم جماد، عالم ارض اور عالم سماء وغیرہ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے کئی عالم ہیں ، مثلاً انسانوں میں ہر جنس، ہر زبان اور ہر علاقے والوں کا الگ جہان ہے۔ غرض اتنے بے حساب جہاں ہیں جنھیں رب تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمایا : ﴿ وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ ﴾ [ المدثر : ۳۱ ] ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ ایک چیونٹی ہی کی ہزاروں قسمیں ہیں ، پرندوں کے بے شمار جہان ہیں ، سمندر کی مخلوقات کا شمار ہی نہیں ، بے شمار کہکشائیں اور ان کے سیارے جن کے مقابلے میں سورج چاند وغیرہ ایک انگوٹھی کی طرح ہیں ، ہر ایک الگ جہان ہے۔ ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے وحدہ لا شریک لہ ہونے کے علم کا ذریعہ ہے۔ رب العالمین ان میں سے ہر ایک کو پیدا کرنے والا، پھر ہر لمحہ اس کی ہر ضرورت پوری کرنے والا اور اسے کمال تک پہنچانے والا ہے۔ غرض سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ وہ ’’ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ ہے۔ 9۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ کی چار صفات بیان ہوئی ہیں ، پہلی صفت ’’ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ میں قرآن کے بنیادی مضامین میں سے توحید کے علاوہ وعدہ اور وعید دونوں موجود ہیں کہ پرورش کرنے والا خوش ہو کر نوازتا ہے تو ناراض ہو کر محروم بھی کر دیا کرتا ہے