وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ
اور اللہ نے تمھارے لیے ان چیزوں سے جو اس نے پیدا کیں، سائے بنا دیے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں سے چھپنے کی جگہیں بنائیں اور تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمھیں تمھاری لڑائی میں بچاتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے، تاکہ تم فرماں بردار بن جاؤ۔
1۔ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا....: ’’ ظِلٰلًا ‘‘ ’’ظِلٌّ‘‘ کی جمع ہے، سائے۔ ’’ اَكْنَانًا ‘‘ اور ’’اَكِنَّةٌ‘‘ دونوں ’’كِنٌّ‘‘ کی جمع ہیں، چھپاؤ کی جگہ یا چیز، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْ اَكِنَّةٍ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۵ ] ’’اور انھوں نے کہا ہمارے دل پردے میں ہیں۔‘‘ ’’ سَرَابِيْلَ ‘‘ ’’سِرْبَالٌ‘‘ کی جمع ہے، قمیص یا جو لباس بھی پہنا جائے۔ ’’ تَقِيْكُمُ ‘‘ ’’وَقٰي يَقِيْ‘‘ سے مضارع معلوم واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ فاعل اس کا ضمیر جمع ہے، اس لیے واحد مؤنث ہے۔ چوپاؤں، مکانوں اور خیموں کے بعد گھر سے باہر سردی گرمی اور دشمن سے بچاؤ کرنے والی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے جن کے پاس مکان یا خیمہ نہیں، یا وہ سفر میں ہیں تو گرمی وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مختلف سایوں کا ذکر کیا، مثلاً درختوں کا سایہ، مکانوں، دیواروں اور پہاڑوں کا سایہ، آبادیوں کا سایہ، چھتریوں کا سایہ، غرض یہی سائے گرمی سردی اور بارش سے بچانے کے کام آتے ہیں۔ 2۔ وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا : اس میں پہاڑوں کی قدرتی غاریں، کھود کر بنائے ہوئے مکان اور پہاڑوں میں کھود کر بنائی ہوئی لمبی سرنگیں، جن میں فوجی سامان، اسلحہ، جہاز اور فوج محفوظ رکھی جاتی ہے، سب شامل ہیں۔ 3۔ وَ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمُ الْحَرَّ: وہ لباس جو تمھیں گرمی سے بچاتے ہیں، بعض اہل علم نے فرمایا کہ قرآن کے اولین مخاطب عرب تھے، وہاں گرمی زیادہ تھی، اس لیے صرف گرمی سے بچانے والے لباس ذکر فرمائے۔ مگر اکثر مفسرین نے فرمایا کہ گرمی کا ذکر کافی سمجھ کر سردی کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ لباس گرمی سے بچاتا ہے تو سردی سے بھی بچاتا ہے۔ رہا عرب میں گرمی کا زیادہ ہونا تو اسی سورت کے شروع میں جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ ﴾ [ النحل : ۵]’’تمھارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے۔‘‘ معلوم ہوا عربوں کو بھی سردی سے بچنے کی ضرورت تھی، اس لیے یہ بات زیادہ قوی ہے کہ قرآن مجید نے صرف گرمی کا ذکر کرکے سردی سے بچانے کی نعمت پر غور کرنا سننے والوں پر چھوڑ دیا، یا سورت کے شروع میں ’’ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ ‘‘ (تمھارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے) میں سردی سے بچاؤ کا ذکر پہلے ہو چکنے کی وجہ سے یہاں ذکر نہیں فرمایا۔ ’’ وَ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ‘‘ اس میں زرہ، خود، بلٹ پروف (گولی سے محفوظ) جیکٹیں، گاڑیاں اور ٹینک وغیرہ سب شامل ہیں۔ 4۔ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ : یعنی تاکہ تم فرماں بردار اور اللہ تعالیٰ کے تابع بن جاؤ، اس لیے کہ جو شخص ان بے پایاں نعمتوں پر غور کرے گا ضروری ہے کہ وہ ایمان لا کر اس کی اطاعت اختیار کرے۔