وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فوقیت بخشی ہے، پس وہ لوگ جنھیں فوقیت دی گئی ہے کسی صورت اپنا رزق ان (غلاموں) پر لوٹانے والے نہیں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں کہ وہ اس میں برابر ہوجائیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔
1۔ وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ....: یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اپنے رزق اور اختیار کا کوئی حصہ دے کر اپنے برابر کرنے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ انسان ہونے میں وہ بالکل تمھاری طرح ہیں، پھر اللہ کے عبید (غلاموں) کو اس کے شریک کیوں بناتے ہو؟ مکہ کے مشرکوں کی عقل کا ماتم کیجیے جو حج و عمرہ پر لبیک کہتے ہوئے یہ اقرار کرنے کے بعد کہ تیرا کوئی شریک نہیں، پھر کہتے سوائے ایک شریک کے، جس کا مالک بھی تو ہے، وہ مالک نہیں۔ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صفتہا… : ۱۱۸۵ ] جب وہ مملوک ہے تو شریک کیسے بن گیا؟ تم اپنے لیے جو بات پسند نہیں کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیوں تسلیم کرتے ہو۔ 2۔ اس آیت سے کمیونسٹوں (اشتراکیوں) کے قول کی بھی واضح تردید ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کے پاس ایک جیسا رزق ہونا چاہیے، جس کے پاس زائد ہو وہ چھین لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ ممکن ہی نہیں، نہ کائنات کا نظام اس سے چل سکتا ہے نہ کبھی ایسا ہوا ہے، حتیٰ کہ کمیونسٹ حکام اور عوام کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ مزید کئی آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے، دیکھیے سورۂ روم (۲۸) اور سورۂ زخرف (۳۲)۔