سورة النحل - آیت 67

وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی، جس سے تم نشہ آور چیز اور اچھا رزق بناتے ہو۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو سمجھتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَ الْاَعْنَابِ....: ’’ النَّخِيْلِ ‘‘ اور ’’اَلنَّخْلُ‘‘ اسم جنس ہیں، کھجور کا درخت۔ اگر ایک درخت واضح کرنا ہو تو ’’تاء‘‘ لگا دیتے ہیں، ’’نَخِيْلَةٌ‘‘ اور ’’نَخْلَةٌ ‘‘ ۔ ’’نَخَلَ يَنْخُلُ‘‘ کا معنی ہے چھان کر عمدہ حصہ الگ کرنا، چھاننا۔ اس لیے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ چونکہ کھجور پھلوں میں منتخب ترین پھل ہے، اس لیے اسے ’’نَخِيْلٌ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے پھل کے مختلف وقتوں کے لحاظ سے الگ الگ نام ہیں، ’’اَلْبَلَحُ‘‘ پھر ’’اَلْبُسْرُ‘‘ پھر ’’اَلرُّطَبُ‘‘ پھر ’’اَلتَّمْرُ‘‘ ۔ اس لیے اس کے درخت کا نام لیا اور انگور کے پھل کا نام جمع کے ساتھ ’’الْاَعْنَابِ ‘‘ لیا، کیونکہ انگور کی بے شمار قسمیں ہیں، البتہ اس کی بیل کو عربی میں’’اَلْكَرْمُ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ سَكَرًا ‘‘ نشہ آور چیز، یہ ’’سَكَرٌ‘‘ اور ’’سُكْرٌ‘‘ دونوں طرح پڑھا جاتا ہے، جیسے ’’رَشَدٌ‘‘ اور ’’رُشْدٌ‘‘۔ 2۔ دودھ والے جانوروں کے بعد پھلوں کی نعمت ذکر فرمائی۔ عرب میں یہ دو پھل زیادہ تھے، پھر یہ تازہ بھی کھائے جاتے ہیں اور ذخیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ان سے بے شمار مصنوعات بھی بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بنائی ہوئی چیزوں کو دو قسمیں قرار دیا، ایک نشہ آور اور ایک رزق حسن۔ اس سے اشارہ فرمایا کہ نشہ بھی اگرچہ فائدے سے خالی نہیں مگر وہ اچھا رزق نہیں۔ یہ آئندہ شراب کی حرمت کی تمہید ہے اور بطور نعمت اس لیے ذکر کیا کہ مکہ میں شراب حلال تھی اور یہ سورت مکی ہے۔ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : رزق حسن میں لذت و قوت تو ہے، مگر سکر کی طرح عقل سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا نقصان نہیں، یہ بات عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔