وَاللَّهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اللہ نے آسمان سے کچھ پانی نازل کیا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیا۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو سنتے ہیں۔
1۔ وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً....: ’’ السَّمَآءِ ‘‘ ’’سُمُوٌ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے ہر اونچی چیز کو ’’سَمَاءٌ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ یہاں مراد بلندی سے اتارنا بھی ہو سکتا ہے اور بادل سے بھی۔ یہاں پانی کی نعمت کی طرف توجہ دلائی ہے جو زندگی کا اصل ہے، فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾ [ الأنبیاء : ۳۰ ] ’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔‘‘ یعنی زمین مردے کی طرح خشک پڑی تھی، نہ اس میں زندگی کے کوئی آثار تھے، نہ گھاس پھونس، نہ پھول پتیاں اور نہ کیڑے مکوڑے، اتنے میں بارش ہوئی اور وہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہری بھری اور تروتازہ ہو گئی اور اس میں ہر قسم کی سر سبزی اور شادابی آگئی اور جگہ جگہ پانی کے چشمے پھوٹنے لگے، گویا مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ یہ مضمون سورۂ حج کی آیت (۵، ۶) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، وہاں اس کی تین حکمتیں بیان ہوئی ہیں اور دیکھیے سورۂ روم (۵۰) اور سورۂ یٰسٓ (۳۳، ۳۴)۔ 2۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ: اس سے وہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جو مالک زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندگی عطا فرما سکتا ہے، وہ انسانوں کو بھی ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں۔ سننے سے مراد انصاف اور غور سے سننا ہے، کیونکہ جو دل سے نہ سنے سمجھو بہرا ہے، جسے سنائی نہیں دیتا، فرمایا : ﴿ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ﴾ [ الأعراف : ۱۷۹ ] ’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘