وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور ہم نے تجھ پر کتاب نازل نہیں کی، مگر اس لیے کہ تو ان کے لیے وہ بات واضح کر دے جس میں انھوں نے اختلاف کیا ہے اور ان لوگوں کی ہدایت اور رحمت کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔
وَ مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ....: پہلی امتوں کی طرح اس وقت بھی جو لوگ شیطان کے خوش نما پھندوں میں گرفتار ہیں، ان کے لیے ہر اختلاف کا فیصلہ کرکے اصل حقیقت کھول کر بیان کرنے ہی کے لیے ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ان تمام چیزوں کی تبیین و وضاحت بھی ہے جس میں لوگ خود فیصلہ نہیں کر سکتے، اس لیے قرآن کی ہر بات کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل اور تقریر سے فرمائی، ورنہ اللہ کی عبادت نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ غرض سب کچھ اختلاف کی نذر ہو جاتا، لوگ ایک طریقے پر متفق ہی نہ ہو سکتے، نہ کتاب اللہ پر عمل ہو سکتا۔ منکرینِ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ اس ہدایت اور رحمت سے بھی محروم ہیں جو اس کتاب سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین و وضاحت سے اہل ایمان ’’ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ‘‘ کو حاصل ہوتی ہے اور درحقیقت وہ قرآن کو بھی نہیں مانتے، ورنہ قرآن کی متعدد آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جھگڑے اور اختلاف میں فیصل ماننے، ان کا اتباع کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم موجود ہے۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی آیت (۸۹)۔