يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
وہ تجھ سے نئے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں اور نیکی ہرگز یہ نہیں کہ گھروں میں ان کی پچھلی طرفوں سے آؤ، بلکہ نیکی اس کی ہے جو بچے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
1۔ الْاَهِلَّةِ : یہ ”هِلاَلٌ“ کی جمع ہے۔ پہلی اور دوسری رات کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے، پھر اسے ’’قمر‘‘ کہا جاتا ہے۔ (راغب) لوگوں نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت دریافت کی تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ چاند ہر ماہ ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے، پھر وہ چودھویں کو پورا (بدر) ہو جاتا ہے۔ آخری رات بالکل غائب ہو جاتا ہے، پھر دوبارہ نئے چاند کی صورت میں نمودار ہو جاتا ہے، جس سے شہروں اور بستیوں کے علاوہ صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والوں کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نیا مہینا شروع ہو گیا ہے اور وہ اس کی مختلف حالتوں سے تاریخ بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔ جب کہ سورج ہمیشہ مکمل رہتا ہے، اس کے حساب سے وقت اور تاریخ معلوم کرنا دنیا کے ہر حصے میں رہنے والوں کے لیے ممکن نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بدلنے والے چاندوں کو بطور کیلنڈر مقرر فرمایا، حج، کفارات اور معاملات، مثلاً طلاق اور وفات کی عدت چاند کے لحاظ ہی سے مقرر فرمائی۔ ہر ماہ طلوع ہونے والے چاندوں کے لحاظ سے ”الْاَهِلَّةِ“ جمع ذکر فرمایا۔ 2۔وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا....:حج کا ذکر آیا تو ایام حج میں جاہلیت کی ایک رسم کا رد فرمایا۔ براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی، انصار جب حج کرتے، پھر (واپس) آتے تو اپنے گھروں کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، اب انصار کا ایک آدمی(حج سے) آیا اور اپنے دروازے کی طرف سے داخل ہو گیا تو گویا اسے اس کی عار دلائی گئی تو یہ آیت اتری : ﴿ وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى وَ اْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا﴾ [ بخاری، العمرۃ، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿ و أتوا البیوت من أبوابہا ﴾ : ۱۸۰۳ ] دوسری روایت میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں جب لوگ احرام باندھ لیتے تو گھروں کی پچھلی طرف سے گھر آتے، تو اس پر یہ آیت اتری۔ [بخاری، التفسیر، بابٌ : ﴿ولیس البر بأن تأتوا البیوت .... ﴾ : ۴۵۱۲ ] آیت میں دونوں کا رد ہے۔ 3۔ ”وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ“ اس میں ”لَيْسَ“ کی تاکید ’’باء‘‘ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ’’نیکی ہر گز یہ نہیں ۔‘‘