أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
یا وہ انھیں خوفزدہ ہونے پر پکڑلے۔ پس بے شک تمھارا رب یقیناً بہت نرمی کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
1۔ اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ: ’’ تَخَوُّفٍ ‘‘ کا ایک معنی خوف زدہ ہونا ہے اور ایک معنی ’’تَنَقُّص‘‘ یعنی آہستہ آہستہ کم ہونا ہے۔ یعنی عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں پہلے ہی سے نظر آ رہا ہو کہ عذاب آ رہا ہے، جس کے آنے سے وہ ہر وقت خوف زدہ رہیں اور اس کے نتیجے میں دن بدن ان کی جانیں، مال اور پیدا وار کم ہوتی چلی جائیں، حتیٰ کہ دیکھتے دیکھتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ بھی عذاب کی نہایت تکلیف دہ صورت ہے، کیونکہ انسان خوف کی وجہ سے نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے، بلکہ گھلتا چلا جاتا ہے۔ اس تفسیر میں ’’ تَخَوُّفٍ ‘‘ اور ’’تَنَقُّص‘‘ (خوف زدہ ہونا اور آہستہ آہستہ کم ہونا) دونوں معنی آ گئے ہیں۔ 2۔ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اگرچہ عذاب کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر وہ تمھیں مہلت دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے، تاکہ تم نافرمانی چھوڑ کر واپس پلٹ آؤ۔ یہ اس کی بے حد شفقت اور نہایت مہربانی ہے کہ تم گناہ کرتے رہتے ہو، اس کے باوجود وہ تمھیں رزق دیتا ہے اور تندرستی بخشتا ہے اور اس کی طرف سے تمھاری فوری گرفت نہیں ہوتی۔ ورنہ اگر وہ تمھیں تمھاری نافرمانیوں کی وجہ سے پکڑے تو زمین پر کوئی چلنے والی چیز باقی نہ رہے۔ دیکھیے سورۂ فاطر کی آخری آیت۔