وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکا نادیں گے اور یقیناً آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ....: ’’ هَاجَرُوْا ‘‘ ’’هَجَرَ يَهْجُرُ‘‘ سے باب مفاعلہ ہے۔ ’’هَجَرَ‘‘ اور ’’هَاجَرَ‘‘ کے مفہوم میں فرق ہے۔ ’’ هَجَرَ الْمَكَانَ ‘‘ ’’اس نے فلاں جگہ چھوڑ دی‘‘ ہو سکتا ہے اسے وہ پسند نہ رہی ہو اور وہ اپنے خیال میں اس سے بہتر جگہ چلا گیا ہو، جگہ نے اسے جانے پر مجبور نہیں کیا، وہ اپنی مرضی سے اسے چھوڑ گیا ہے، لیکن ’’هَاجَرَ ‘‘ یعنی باب مفاعلہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے، یعنی قوم کی طرف سے مزاحمت اور مقابلے نے اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، وہ اپنی جگہ چھوڑنے پر ازخود راضی نہ تھا۔ (شعراوی) 2۔ اللہ کی توحید اور قیامت پر ایمان لانے والوں کا توحید اور قیامت کے منکروں کے ساتھ خوشی سے مل جل کر رہنا ممکن ہی نہ تھا، خصوصاً جب اہل ایمان تعداد اور قوت میں کمزور بھی تھے۔ اپنے وطن کو جہاں بیت اللہ بھی ہو، کون خوشی سے چھوڑ سکتا ہے؟ اس لیے انھوں نے وطن چھوڑا تو دو وجہوں سے، ایک تو قوم کے ظلم کی وجہ سے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ﴾ اور دوسرا اس لیے کہ اللہ کے دین پر عمل کرنا وطن میں ممکن نہ رہا، تو انھوں نے گھر بار، خویش، قبیلے، جائداد، غرض ہر چیز کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیا اور ایسی جگہ چلے گئے جہاں وہ ظلم سے بھی بچ جائیں اور اللہ کے دین پر بھی عمل کر سکیں۔ چونکہ یہ سورت مکی ہے، اس لیے اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد مردوں، عورتوں اور بچوں سمیت ایک سو یا کم و بیش تھی، جن میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رقیہ رضی اللہ عنھا (بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی تھیں، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں ہر مہاجر شامل ہے، خواہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہو یا مدینہ کی طرف، یا کسی بھی ظالم بستی سے امن کی بستی کی طرف۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں حبشہ کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کا پیشگی اشارہ ہو۔ 3۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً....: ’’ بَوَّءَ يُبَوِّءُ‘‘ (تفعیل) رہنے کی جگہ دینا، ٹھکانا دینا۔ اللہ تعالیٰ نے لام اور نون ثقیلہ دو تاکیدوں کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا، چنانچہ اس نے ان ناتواں اور غریب الوطن مہاجرین کو دنیا میں عزت، شرف، عظمت، حکومت، دولت غرض ہر چیز عطا فرمائی۔ وہ جزیرۂ عرب ہی کے نہیں، شام، مصر، عراق، فارس کے مالک بنے اور نصف صدی گزری تھی کہ وہ تمام دنیا پر غالب تھے۔ یہ بھی کوئی اجرِ صغیر نہیں، اجرِ کبیر ہے، جو دین کی اشاعت اور آخرت کی تیاری میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کبیر ہی کے مقابلے میں اکبر ہوتا ہے، نہ کہ صغیر کے مقابلے میں، اس لیے فرمایا، یقیناً آخرت کا اجر اکبر ہے، یعنی اس سے بھی بڑا، بلکہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۸)، آل عمران (۱۹۵) اور سورۂ نساء (۱۰۰)۔ 4۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : اس سے مراد تین طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں : (1) کافر کہ وہ علم رکھتے ہوتے تو ایمان لے آتے۔ (2) مہاجر کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو انھیں بے حد خوشی ہوتی۔ (3) وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو ضرور ہجرت کرتے۔