إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
ہمارا کہنا کسی چیز کو، جب ہم اس کا ارادہ کرلیں، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ ہم اسے کہتے ہیں ہو جاتو وہ ہوجاتی ہے۔
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ....: یعنی جس کی قدرت کا یہ حال ہو اس کے لیے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا بھی ثابت ہوا۔ قرآن و حدیث میں بہت سی جگہ اللہ کے کلام کرنے کا صریح الفاظ میں ذکر ہے۔ (دیکھیے نساء : ۱۶۴۔ توبہ : ۶) یونان کے کافرانہ فلسفے سے متاثر لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کر سکتا، نہ سن سکتا ہے، نہ دیکھتا ہے۔ ہمارے کچھ مسلمانوں نے جو قرآن کو بھی ماننا چاہتے ہیں اور یونانی فلسفے کو بھی، انھوں نے اللہ کے کلام کو مخلوق کہہ دیا اور سننے اور دیکھنے کا معنی یہ کیا کہ وہ جانتا ہے، حالانکہ کلام، خلق، سمع، بصر اور علم سب الگ الگ صفات ہیں اور اللہ نے خود اپنی یہ صفتیں بیان فرمائی ہیں، البتہ اس کی یہ صفات مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ فرمایا : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ﴾ [ الشورٰی : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ کلام بھی کرتا ہے مگر جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کی مثل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس کی ثابت شدہ صفات سمع، بصر اور کلام وغیرہ کا بھی انکار کر دو، یا ایسا مطلب بیان کرو جس کا نتیجہ انکار ہو۔