الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، تو وہ فرماں برداری پیش کرتے ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کیا کرتے تھے۔ کیوں نہیں! یقیناً اللہ خوب جاننے والا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔
1۔ الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ....: ’’ فَاَلْقَوُا ‘‘ ’’أَلْقٰي يُلْقِيْ‘‘ (افعال) سے ماضی معلوم کا جمع مذکر غائب ہے۔ مراد مستقبل ہے، کیونکہ وہ ماضی کی طرح یقینی ہے۔ ’’ اِلْقَاءٌ‘‘ کا لفظ اجسام کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ’’فُلاَنٌ أَلْقَي السِّلَاحَ‘‘ کہ فلاں نے ہتھیار پھینک دیے، یعنی اپنے آپ کو حوالے کر دیا۔ ’’ السَّلَمَ ‘‘ کا معنی ’’اِسْتِسْلَامٌ‘‘ ہے، یعنی مکمل طور پر تابع اور مطیع ہونا۔ 2۔ ظَالِمِيْ اَنْفُسِهِمْ: اس سے مراد کفار ہیں، کیونکہ ’’ الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمْ ‘‘ پچھلی آیت میں مذکور ’’ الْكٰفِرِيْنَ ‘‘ کی صفت ہے اور اپنی جان پر سب سے بڑا ظلم کفر و شرک ہی ہے۔ (دیکھیے انعام : 21) ظالم ہونے کی حالت میں انھیں فرشتوں کے فوت کرنے میں اس سختی کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس وقت ان ظالموں پر گزرتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۹۳) اور سورۂ انفال (۵۰) براء بن عازب رضی اللہ عنھما کی طویل حدیث میں مومن اور کافر کی موت کے وقت فرشتوں کا ان سے سلوک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ [ مسند أحمد : ۴ ؍۲۸۷، ۲۸۸، ح : ۱۸۵۶۱۔ أبوداؤد : ۴۷۵۳ ] 3۔ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ : یعنی ساری عمر تو اہل ایمان سے مخالفت اور لڑنے میں گزار دی، اب حقیقت واضح ہونے پر اپنی فرماں برداری کا اظہار کریں گے کہ ہم تو کوئی برا کام کیا ہی نہ کرتے تھے۔ وہاں صاف جھوٹ بول کر سمجھیں گے کہ دنیا کی طرح یہاں بھی ہمارا جھوٹ چل جائے گا، بلکہ اس پر قسمیں بھی اٹھائیں گے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۲، ۲۳) اور سورۂ مجادلہ (۱۸)۔