أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
1۔ اَتٰى اَمْرُ اللّٰهِ:’’ اَمْرُ اللّٰهِ ‘‘ سے مراد قیامت ہے اور مشرکین پر مختلف قسم کے عذاب کا نزول بھی ہے اور ’’اَتٰى ‘‘ (آ گیا) سے مراد بالکل قریب آنا ہے، کیونکہ آ ہی چکا ہو تو پھر کفار کی طرف سے اسے جلدی لانے کا مطالبہ بے معنی ہے۔ 2۔ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ: مشرکین قیامت یا عذاب کا ذکر آنے پر مذاق اڑانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دیکھیے سورۂ انفال ( ۳۲) اور سورۂ عنکبوت (۵۳ تا ۵۵) لفظ ماضی ’’ اَتٰى ‘‘ (آگیا) کا مطلب ہے کہ اس کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو آ ہی چکا، اس لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ بالکل قریب ہے اور طے شدہ وقت پر آ جائے گا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ مسلمان بھی بعض اوقات پریشان ہو کر مسلمانوں کے لیے اللہ کی نصرت اور کفر پر عذاب میں تاخیر پر اس کے جلدی آنے کی دعا کرتے تھے، انھیں بھی تسلی دی کہ سمجھو اللہ کا حکم آ ہی گیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ﴾ [ البقرۃ : ۲۱۴ ] ’’یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو، بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘ 3۔ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ: عذاب کے جلدی نہ آنے کی و جہ سے وہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ وہ عذاب لا ہی نہیں سکتا، ورنہ فوراً کیوں نہیں لے آتا۔ فرمایا ان کا اللہ تعالیٰ کو اپنا حکم نافذ کرنے سے اور عذاب لانے سے عاجز قرار دینا، یا وعدہ خلافی کرنے والا سمجھنا کفر و شرک کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح پاک اور نہایت بلند ہے۔ وہ نہ عاجز ہے نہ وعدہ خلاف، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، ان کی فرمائشوں کا پابند نہیں۔ دیکھیے سورۂ حج (۴۷) ۔ 4۔ آیت کے شروع میں مخاطب کرکے فرمایا : ﴿ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ﴾ ’’تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو‘‘ اور آیت کے آخر میں مشرکین کا ذکر غائب کے لفظ سے کیا : ﴿ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ ’’وہ اس سے پاک اور بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں‘‘ اسے التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔