وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ
اور کہہ دے بے شک میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
وَ قُلْ اِنِّيْ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : یہاں صرف ڈرانے کا ذکر ہے، خوش خبری کا نہیں، اس لیے کہ بات منکروں کے متعلق ہو رہی ہے۔ ’’ النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ ‘‘ (کھلم کھلا ڈرانے والا) کی تفسیر میں وہ حدیث عین حسب حال ہے جو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی: (( إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَي قَوْمًا فَقَالَ يَا قَوْمِ ! إِنِّيْ رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ، وَإِنِّيْ أَنَا النَّذِيْرُ الْعُرْيَانُ، فَالنَّجَاءَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوْا فَانْطَلَقُوْا عَلٰي مَهْلِهِمْ فَنَجَوْا، وَ كَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوْا مَكَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ، فَذٰلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِيْ فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِيْ وَكَذَّبَ بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ )) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : ۷۲۸۳ ] ’’میری مثال اور اللہ نے جو کچھ دے کر مجھے بھیجا اس کی مثال اس آدمی کی مثال جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں (پہلے زمانے میں لوگ دشمن سے ڈرانے کے لیے چیخنے چلانے کے ساتھ کپڑے بھی اتار دیتے تھے، ان سے تشبیہ دی ہے) سو تم بچ جاؤ، بچ جاؤ، اس کی قوم میں سے ایک گروہ نے اس کا کہنا مان لیا، وہ راے کے پہلے حصے ہی میں چل پڑے اور آرام سے چلتے ہوئے بچ نکلے اور ایک گروہ نے اسے جھٹلا دیا اور صبح تک اسی جگہ رہے۔ صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کیا اور انھیں ہلاک اور نیست و نابود کر دیا، سو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس کی (مثال) جس نے میری نافرمانی کی اور اس حق کو جھٹلا دیا جو لے کر میں آیا ہوں۔‘‘