وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ
اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے، بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ....: ’’ نَزْعٌ‘‘ کا معنی کھینچ کر، اکھاڑ کر نکالنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کینہ اور دشمنی دل میں کتنی گہری جڑ پکڑتی ہے۔ ’’ غِلٍّ ‘‘ کینہ، کھوٹ، یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں اہل جنت کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ہر کینے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے گا، کیونکہ جس سینے میں کوئی کدورت ہو وہ مکمل خوشی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا۔ دلوں کی صفائی کے بعد وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ محبت ہو تو خودبخود چہرے آپس میں مل جاتے ہیں، جب کہ دلوں میں کدورت ہو تو چہرے بھی ادھر ادھر ہو جاتے ہیں: دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اہل جنت کے متعلق) فرمایا : (( قُلُوْبُهُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لاَ اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ وَلَا تَبَاغُضَ )) [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ۳۲۴۶ ] ’’ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہو گا، نہ آپس میں کوئی بغض۔‘‘ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقْتَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتّٰی إِذَا هُذِّبُوْا وَ نُقُّوْا أُذِنَ لَهُمْ فِيْ دُخُوْلِ الجَنَّةِ )) [ بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : ۶۵۳۵ ] ’’مومن آگ سے بچ کر آئیں گے تو جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیے جائیں گے، پھر دنیا میں ان کے ایک دوسرے پر مظالم کا قصاص ایک دوسرے کو دلوایا جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کی پوری تراش خراش کر دی جائے گی اور خوب پاک صاف کر دیے جائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور صلحائے امت باہمی لڑائیوں اور رنجشوں کے باوجود جنت میں جائیں گے، مگر اس سے پہلے ان کے دلوں کی باہمی کدورتیں بالکل دور کر دی جائیں گی اور وہ صاف دل بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے۔