وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
1۔ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ....: اس سورت میں آیت (۱۶) ﴿ وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا ﴾ سے دلائلِ توحید کا بیان چلا آ رہا ہے، جب اوپر کی آیات میں مختلف چیزوں کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کیے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے، الغرض یہ دلائلِ توحید میں ساتویں قسم ہے۔ (کبیر) 2۔ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ: عربی زبان میں خشک مٹی کو ’’تُرَابٌ ‘‘ کہتے ہیں، جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ ’’طِيْنٌ‘‘ کہلاتی ہے، پھر جب مدت تک پڑی رہنے سے وہ سیاہ ہو جائے تو اسے ’’ حَمَاٍ ‘‘ کہتے ہیں ،بدبو بھی آنے لگے تو ’’ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ‘‘ (بدبو دار کیچڑ) کہتے ہیں، پھر جب وہ خشک ہو کر کھن کھن بجنے لگے تو وہ’’صَلْصَالٍ ‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ مَسْنُوْنٍ ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس کی تصویر بنائی گئی ہو، جیسا کہ ’’سُنَّةُ الْوَجْهِ‘‘ کا معنی ’’صُوْرَةُ الْوَجْهِ‘‘آتا ہے اور ’’مَسْنُوْنٍ ‘‘ کا معنی ملائم و نرم بھی ہے۔ آیات و تفاسیر سے آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سے خشک مٹی لی، جیسا کہ سورۂ آل عمران (۵۹) میں آدم علیہ السلام کو ’’ تُرَابٍ ‘‘سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ )) [ أبوداؤد، السنۃ، باب في القدر : ۴۶۹۳۔ ترمذی : ۲۹۵۵۔ أحمد : ۴ ؍۴۰۰، ح : ۱۹۶۰۱، و صححہ الألباني ]’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا فرمایا، جو اس نے ساری زمین سے لی، تو بنی آدم اس زمین کے اندازے کے مطابق وجود میں آئے، ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور اس کے مابین لوگ ہیں اور نرم، سخت خبیث، طیب اور اس کے مابین بھی ہیں۔‘‘ پھر اس میں پانی ڈالا تو وہ ’’طِيْنٌ‘‘ ہو گئی، پھر اسے مدتوں پڑا رہنے دیا، جب وہ کالی سیاہ اور ملائم و نرم ہو گئی تو آدم علیہ السلام کا ڈھانچہ اور شکل و صورت بنائی، فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ﴾ [ الأعراف : ۱۱ ] جب وہ سوکھ کر کھن کھن بجنے لگا تو اس میں اپنی خاص پیدا کردہ روح پھونکی، جیسا کہ اس جگہ ’’ صَلْصَالٍ ‘‘ کا ذکر ہے اور اس کے خوب خشک ہونے کا ذکر سورۂ رحمن (۱۴) میں ہے، فرمایا : ﴿مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ﴾ کہ وہ کھنکھنانے والی مٹی آگ میں پکی ہوئی مٹی کی طرح کھنکھنانے والی تھی۔