وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ
اور بے شک ہم، یقیناً ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔
وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْيٖ وَ نُمِيْتُ....: اس آیت میں زندگی اور موت اور وراثت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہونے کی تاکید ’’ اِنَّ ‘‘ ، لام تاکید، ’’ نَا ‘‘ ضمیر متکلم، ’’ نَحْنُ ‘‘ ضمیرمتکلم، ’’ نُحْيٖ ‘‘ اور ’’ نُمِيْتُ ‘‘ میں ضمیر متکلم کے ساتھ کی ہے اور آخر میں پھر ’’نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ ‘‘ میں ’’ نَحْنُ ‘‘ کے ساتھ اور ’’ الْوٰرِثُوْنَ ‘‘ خبر کو الف لام برائے حصر کے ساتھ لا کر تاکید کی انتہا کر دی ہے کہ زندگی اور موت کا مالک صرف اللہ ہے اور صرف وہی وارث ہے۔ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں اتنی تاکید کا سامان ہی موجود نہیں اور اتنی تاکید کی ضرورت اس لیے ہے کہ کفار کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ یہ تینوں باتیں نہیں مانتے، ورنہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے۔جتنا انکار سخت ہو گا اتنی ہی زیادہ تاکید کے ساتھ بات کی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ سب فنا ہو جائیں گے، مال و متاع جو کچھ بچ رہے گا وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔