وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ
اور ہم نے ہواؤں کو بار آور بناکر بھیجا، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے تمھیں وہ پلایا اور تم ہرگز اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں۔
1۔ وَ اَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ....: ’’ لَوَاقِحَ ‘‘’’لَاقِحٌ‘‘ کی جمع بھی ہو سکتی ہے، یہ لفظ مذکر ہونے کے باوجود مؤنث ہے ،جیسے ’’حَائِضٌ‘‘ اور ’’ حَامِلٌ ‘‘، ’’ لِقَاحٌ ‘‘ نر جانور کے مخصوص پانی کو کہتے ہیں۔ ’’لَاقِحٌ‘‘ وہ اونٹنی جس نے ’’لِقَاحٌ‘‘ کو قبول کر لیا ہو، یعنی حاملہ ہو چکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر حاملہ اونٹنیوں کی طرح ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ ’’لَاقِحٌ‘‘ بمعنی ’’مُلْقِحٌ‘‘ (باب افعال سے اسم فاعل، یعنی وہ نر جو حاملہ کرتا ہے) کی جمع بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ ہوائیں بادلوں پر اور مادہ درختوں پر، مثلاً کھجور وغیرہ، یا مادہ پھولوں پر عمل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں کہ ہواؤں کے ذریعے سے بادل برسنے کے قابل ہوتے ہیں، ہواؤں ہی کے ذریعے سے نر درختوں اور نر پھولوں کا بور ان کے مادہ درختوں اور پھولوں تک پہنچتا ہے، جس سے ان کے پھل لانے کا عمل وجود میں آتا ہے۔ آیت کا کمالِ بلاغت یہ ہے کہ ’’ لَوَاقِحَ ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا جو حاملہ ہونے اور حاملہ کرنے کے دونوں مفہوم ادا کرتا ہے۔ 2۔ فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : ’’سَقٰي يَسْقِيْ‘‘ پلانا، ’’أَسْقٰي يُسْقِيْ‘‘ پلانے کے لیے دینا، مہیا کرنا، یعنی ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور تمھیں ایک دوسرے کو پلانے اور اپنے جانوروں اور پودوں کو پلانے کے لیے عطا فرمایا۔ 3۔ وَ مَا اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ: یعنی نہ اوپر آسمان میں بارش کا خزانہ تمھارے قبضے میں ہے اور نہ نیچے زمین میں کنوؤں، چشموں، تالابوں کے خزانے پر تمھارا کوئی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی کو جس مقدار میں چاہتا ہے رکھتا ہے، وہ جب چاہے بارش برسائے تم اسے روک نہیں سکتے، یا جب چاہے روک لے تم اسے اپنی مرضی سے برسا نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر وہ چاہے تو چشموں اور کنوؤں میں تمام جمع شدہ پانی زمین میں جذب ہو جائے اور تمھیں ایک قطرہ بھی پینے کو نہ ملے۔