وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ
اور انھوں نے کہا اے وہ شخص جس پر یہ نصیحت نازل کی گئی ہے! بے شک تو تو دیوانہ ہے۔
1۔ وَ قَالُوْا يٰاَيُّهَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ: وہ یہ بات بھی استہزا کے لیے کہہ رہے ہیں، یہ نہیں کہ وہ اسے مانتے تھے۔ ’’ الذِّكْرُ ‘‘ سے ہر وہ چیز مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، اس میں قرآن مجید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ 2۔ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ : پچھلی آیات میں کفار کو کتاب اللہ کے جھٹلانے پر ڈانٹا گیا تھا، اب ان کی سرکشی کا بیان ہے اور ان کے رسول کے ساتھ استہزا اور آپ کو جھٹلانے کا بیان ہے۔ وہ لوگ مذاق کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل اور دیوانہ کہتے تھے، حالانکہ آپ سب سے زیادہ عقل مند تھے۔یہ ان کے کفر و استہزا کی بدترین صورت تھی اور انھوں نے یہ بات اس قدر مشہو ر کر رکھی تھی کہ صحیح مسلم میں ضماد ازدی کا قصہ مذکور ہے کہ وہ ازد قبیلے کا ایک فرد تھا، مکہ آیا تو اس نے مکہ کے بے وقوفوں سے سنا کہ آپ مجنون ہیں، وہ آپ کے پاس آیا اور آپ کو آپ کا علاج کرنے کی پیش کش کی، آپ نے خطبہ مسنونہ پڑھا، اس نے درخواست کی کہ آپ اسے پھر پڑھیں، آپ نے تین دفعہ یہ خطبہ پڑھا، اس نے اس کی بے حد تعریف کی اور اسی پر مسلمان ہو گیا۔ [ مسلم، الجمعۃ،باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ : ۸۶۸ ] سبحان اللہ! علاج کے لیے آنے والے کا خود علاج ہو گیا۔