سورة ابراھیم - آیت 27

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ ظالموں کو گمراہ کردیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : قولِ ثابت سے مراد کلمہ شہادت اور عقیدۂ توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا میں سخت سے سخت آزمائشوں اور سزاؤں میں بھی اسلام پر قائم رکھتا ہے۔ اصحاب الاخدود کو دیکھ لیجیے، ان انبیاء و شہداء کو دیکھ لیجیے جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے، مگر انھوں نے اسلام کا دامن نہیں چھوڑا۔ ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے کو دیکھ لیجیے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مثلاً بلال، عمار، یاسر، خباب، سمیہ، خبیب وغیرہم رضی اللہ عنھم پر آنے والی تنگیوں اور تکلیفوں کو دیکھ لیجیے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں کا کلمہ شہادت پر قائم رہنا اللہ تعالیٰ کے ثابت رکھنے سے ہے، وہی ان میں اس قدر عزم و ہمت اور استقامت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات ہوں یا دنیاوی آسائشوں کی آزمائش ہو، ہر حال میں پختہ بات (کلمہ اسلام) پر خوب قائم رہتے ہیں۔ ’’ يُثَبِّتُ ‘‘ کا ترجمہ باب تفعیل کی وجہ سے ’’خوب قائم رکھتا ہے‘‘ کیا ہے۔ 2۔ وَ فِي الْاٰخِرَةِ : اس سے مراد قبر میں سوال و جواب ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا أُقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِيْ قَبْرِهِ أُتِيَ ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ : ﴿ يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾)) [إبراہیم : ۲۷ ] ’’جب مومن کو قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، پھر وہ شہادت دیتا ہے : ’’أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ چنانچہ اللہ کے اس فرمان : ﴿ يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ کا یہی مطلب ہے۔‘‘ [ بخاري ، الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر : ۱۳۶۹ ] صحیح بخاری ہی میں اس کے بعد والی روایت میں یہ لفظ ہیں کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں اتری۔ وَ يُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِيْ قَبْرِهِ وَتَوَلَّی عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُوْلاَنِ مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ، فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللّٰهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا، أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِيْ قَبْرِهِ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ لاَ أَدْرِيْ، كُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُهُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ)) [ بخاري، الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر : ۱۳۷۴ ] ’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل پڑتے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں، وہ اسے بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’تو اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتا تھا؟‘‘ اگر وہ مومن ہے تو کہتا ہے : ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ آگ میں اپنی جگہ دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اسے بدل کر تجھے جنت میں جگہ دے دی ہے۔ چنانچہ وہ ان دونوں کو دیکھتا ہے، تو اس کے لیے اس کی قبر کو وسیع کر دیا جاتا ہے اور منافق اور کافر، اس سے کہا جاتا ہے : ’’تو اس آدمی(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟‘‘ وہ کہتا ہے : ’’میں نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں وہی کہا کرتا تھا۔‘‘ تو اس سے کہا جاتا ہے : ’’نہ تو نے کچھ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی۔‘‘ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ ایک ضرب ماری جاتی ہے تو وہ ایسا چیختا ہے کہ دو بھاری مخلوقوں (جن و انس) کے سوا سب چیزیں جو اس کے قریب ہوتی ہیں، اس آواز کو سنتی ہیں۔‘‘ قبر کا عذاب حق ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی آیات و احادیث سے اسے ثابت فرمایا ہے، دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۲۰)، سورۂ انعام (۹۳)، سورۂ توبہ (۱۰۱)، سورۂ مومن (۴۵، ۴۶) اور زیر تفسیر آیت۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : (( اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ)) [ بخاری، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر : ۱۳۷۷ ] بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی شخص تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے : ((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ )) اس کے بعد اپنے لیے جو چاہے دعا کرے۔‘‘ [ السنن الکبریٰ للنسائی :1؍389، ۳۹۰، ح : ۱۲۳۳، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ۔ صحیح ] اس لیے بعض ائمہ نے یہ دعا پڑھنا تشہد کے بعد واجب قرار دیا ہے، دوسری دعائیں اس کے بعد پڑھے۔ اتنی واضح آیات و احادیث کے باوجود بہت سے بدنصیب عذاب قبر کے منکر ہیں۔ وہ ان شاء اللہ بہت جلد اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے۔ وَ يَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ : اہل ایمان کو ثابت رکھنا، ظالموں کو ہدایت سے محروم رکھنا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اپنی دوسری ساری مخلوق کی طرح جن و انس کو بھی اپنے احکام بجا لانے پر مجبور کر دیتا، مگر اس کی مرضی کہ اس نے ان دونوں کو ہدایت یا ضلالت، کفر یا ایمان کا اختیار دیا۔ اب جو جدھر جانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے وہی راستہ آسان کر دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ دہر (۳) اور سورۂ لیل (۱ تا ۱۰)۔