وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، ان کی آپس کی دعا اس میں سلام ہوگی۔
1۔ وَ اُدْخِلَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.....: اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق یہاں بھی مشرکین اور شیطان کے ذکر کے بعد ایمان اور عمل صالح والوں کا انجام ذکر فرمایا کہ وہ جنتوں میں داخل کر دیے گئے۔ مراد یہ ہے کہ کیے جائیں گے، مگر بات اتنی یقینی ہے کہ اسے ماضی کے لفظ سے بیان کیا کہ سمجھو یہ کام ہو چکا۔ اس سے پہلے شیطان اور مشرکین، کمزور اور سرداروں کی گفتگو میں بھی ماضی کا صیغہ یہی حکمت رکھتا ہے۔ 2۔ وَ اُدْخِلَ: ’’داخل کیے جائیں گے‘‘ داخل کون کرے گا؟ اس کی تین جہتیں ہیں، اصل تو اللہ تعالیٰ ہے جو جنت میں بھیجنے کا حکم دے گا، پھر فرشتے ہیں جو اس کے حکم سے انھیں جنت میں لے جائیں گے، تیسرے ان کا ایمان اور عمل صالح ہیں جو اللہ کی رحمت اور ان کے جنت میں جانے کا ذریعہ بنیں گے، اس لیے مجہول کا صیغہ استعمال کیا۔ ’’بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ‘‘ یعنی یہ سب کچھ ان کے رب کی توفیق اور مہربانی سے ہوگا۔ 3۔ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ : یعنی آپس میں ملتے وقت وہ ’’السلام علیکم‘‘ کہیں گے۔ فرشتے ان سے کہیں گے : ﴿ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ﴾ [ الرعد : ۲۴ ] ’’سلام ہو تم پر اس کے بدلے میں جو تم نے صبر کیا۔‘‘ یعنی تم پر سلامتی ہو، پھر رب رحیم انھیں سلام کہے گا: ﴿ سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ ﴾ [ یٰسٓ : ۵۸ ]’’سلام ہو۔ اس رب کی طرف سے کہا جائے گا جو بے حد مہربان ہے۔‘‘ اس میں مبارک باد کا مفہوم بھی ہے، سلامتی کی دعا بھی اور اللہ کی طرف سے سلامتی کا عطیہ بھی۔