وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور شیطان کہے گا، جب سارے کام کا فیصلہ کردیا جائے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں بلایا تو تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمھاری فریاد کو پہنچنے والا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو، بے شک میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے اس سے پہلے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں انھی کے لیے دردناک عذاب ہے۔
1۔ بِمُصْرِخِكُمْ: ’’ صُرَاخٌ ‘‘ کا معنی چیخنا چلانا ہے جو مصیبت سے بچانے کے لیے بطور فریاد ہوتا ہے۔ ’’اَصْرَخَ يُصْرِخُ‘‘ باب افعال میں ہمزہ ازالۂ ماخذ کے لیے ہے، یعنی اس مصیبت کو جو چیخنے کا باعث ہے دور کرنا، جیسے ’’شَكَانِيْ فَأَشْكَيْتُهُ ‘‘ کہ اس نے مجھ سے شکایت کی تو میں نے اس کی شکایت دور کر دی۔ اسی لیے عام طور پر ’’صُرَاخٌ‘‘ کا معنی فریاد اور ’’اِصْرَاخٌ‘‘ کا معنی فریاد رسی کر لیا جاتا ہے۔ ’’ بِمُصْرِخِيَّ ‘‘ اصل میں ’’بِمُصْرِخِيْنَ‘‘ جمع مذکر سالم تھا، یاء متکلم کی طرف مضاف ہوا تو نون اعرابی گر گیا اور یاء کے یاء میں ادغام کے ساتھ ’’ بِمُصْرِخِيَّ ‘‘ ہو گیا۔ 2۔ وَ قَالَ الشَّيْطٰنُ لَمَّا قُضِيَ الْاَمْرُ ....: فیصلے کے بعد جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے اور جہنمی جہنم میں اور ہر طرف سے شیطان پر ملامت کی بوچھاڑ ہو گی تو شیطان اس کے جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ حق تھا، کیونکہ وہ ان تمام چیزوں کا مالک تھا جن کا وعدہ کیا تھا، مثلاً مرنے کے بعد زندہ کرنا، جنت، جہنم اور دعا کی قبولیت وغیرہ، اس لیے اس نے وہ وعدہ پورا کیا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا وہ جھوٹا تھا کہ اس طرح کرو گے تو یہ ہو جائے گا، داتا کو پکارو گے تو یہ ہو گا، دستگیر کو پکارو گے تو یہ ہو گا، کیونکہ ان میں سے کوئی کسی چیز کا مالک ہی نہ تھا اور جو آرزوئیں میں نے تمھارے دل میں ابھاری تھیں کہ فلاں کی نیاز دینے سے معشوق قدموں میں آ گرتا ہے، فلاں کے نام کا بکرا دینے سے دشمن کا ستیاناس ہو جاتا ہے، ان کا وجود ہی نہ تھا۔ فرمایا : ﴿ يَعِدُهُمْ وَ يُمَنِّيْهِمْ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [ النساء : ۱۲۰ ] ’’وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی ہمیں تعلیم یہ ہے کہ تم جب بھی وعدہ کرو تو اس چیز کا کرو جو تم کر سکتے ہو، پھر بھی ساتھ ان شاء اللہ ضرور کہو، کیونکہ تمھارا اختیار اللہ تعالیٰ کے تابع ہے، فرمایا : ﴿ وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّيْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا (23) اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ ﴾ [ الکہف : ۲۳، ۲۴ ] ’’اور کسی چیز کے بارے میں ہر گز نہ کہہ کہ میں کل یہ کام ضرور کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ 3۔ وَ مَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ ....: ’’ سُلْطَةٌ ‘‘ اور ’’ سُلْطٰنٍ ‘‘ كا مطلب زبردستی كسی پر غلبہ حاصل كر لينا، مسلط ہو جانا ہے۔ يہ تسلط دو طرح كا ہوتاہے، ايك حكومت كے ذریعے سے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ شیطان کی ان پر کوئی حکومت نہ تھی کہ وہ ان پر کوئی فوج چڑھا لایا تھا اور ایک سلطان اور غلبہ صحیح دلیل کا ہوتا ہے، کیونکہ وہ دلیل دل پر قابو پا لیتی ہے اور آدمی اس کے مطابق عمل پر مجبور ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان کے پاس ڈنڈا بھی نہ تھا اور کوئی معقول دلیل بھی نہ تھی، چنانچہ وہ کہے گا میں نے تو بس اتنا کیا تھا کہ تمھیں کچھ کاموں کی دعوت دی، وہ تمھاری کمزوریوں، مثلاً حرص، شہوت، غصے، بزدلی وغیرہ کے عین مطابق تھی اور اس میں تمھاری خواہشات کو ابھارا گیا تھا، تم نے فوراً اسے قبول کر لیا ( أَجَبْتُمْ اور اِسْتَجَبْتُمْ کے فرق کو ملحوظ رکھیں) اس لیے مجھے ملامت مت کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، کیونکہ اپنی مرضی سے گناہ تم نے کیا، میں نے تم پر کوئی زبردستی نہیں کی۔ اب نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو نہ میں تمھاری۔ سورۂ نحل کی آیت (۱۰۰) میں شیطان کے سلطان کی تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ اِنِّيْ كَفَرْتُ بِمَا اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے تم نے جو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا تھا میں اس کا انکار کرتا ہوں، کیونکہ عبادت تو صرف اللہ کا حق تھا، اسی طرح حکم ماننا تم پر صرف اللہ کا حق تھا اور وہ بھی اس کی عبادت میں شامل تھا، تم نے اس کے بجائے میرا حکم مانا، میری عبادت کی، مجھے اس کا شریک بنایا، اب میں اس سے صاف لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔ تم نے میری نہیں بلکہ اپنی خواہش کی پیروی کی اور تم اللہ کے بجائے مجھے نہیں بلکہ اپنے وہم و گمان کے بنائے ہوئے دستگیروں اور داتاؤں کو پکارتے رہے ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ﴾ [ النجم : ۲۳ ] ’’یہ لوگ (مشرکین) صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔‘‘ 5۔ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: یہ بطور اعتراف شیطان کی بات کا آخری حصہ بھی ہو سکتا ہے جس سے پہلے وہ درج ذیل باتیں کہہ کر ان سے بری ہو چکا ہے : (1) میرا وعدہ جھوٹا تھا۔ (2) میرا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا۔ (3) تم نے دلیل سے خالی دعوت قبول کی۔ (4) مجھے ملامت کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔ (5) میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ (6) تم نے مجھے جو شریک بنایا میں اسے نہیں مانتا۔ (7) یہ آخری بات ہے کہ ظالموں (مشرکوں) کے لیے عذابِ الیم ہے۔ (خلاصہ از شوکانی) اور یہ جملہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہو سکتا ہے جو اظہار حقیقت ہے۔