يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ
وہ اسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پیے گا اور قریب نہ ہوگا کہ اسے حلق سے اتارے اور اس کے پاس موت ہر جگہ سے آئے گی، حالانکہ وہ کسی صورت مرنے والا نہیں اور اس کے پیچھے ایک بہت سخت عذاب ہے۔
1۔ يَتَجَرَّعُهٗ : یہ باب تفعل سے ہے، جس میں تکلف کا معنی ہوتا ہے، یعنی مشکل سے ایک ایک گھونٹ کرکے اسے پیے گا اور وہ اتنا کڑوا، بدذائقہ، بدبو دار اور گرم ہو گا کہ قریب نہیں کہ گلے سے اتار سکے، مگر پیاس کا عذاب اسے پینے پر مجبور کرے گا اور اندر جا کر وہ ان کی انتڑیاں کاٹ دے گا۔ دیکھیے سورۂ محمد(۱۵)۔ 2۔ وَ يَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ ....: اور ہر جگہ سے اسے موت آتی دکھائی دے گی، کیونکہ جہنم کی ایک ایک چیز موت کے لیے کافی ہے، مگر وہ کسی صورت مرنے والا نہیں، کیونکہ وہاں موت ہو گی ہی نہیں۔ ’’ بِمَيِّتٍ ‘‘ کی باء سے نفی کی تاکید ہوئی، اس لیے ترجمہ میں ’’کسی صورت‘‘ کا اضافہ ہو گیا۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۳۶) اور سورۂ اعلیٰ(۱۳)۔ 3۔ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ : یعنی اس کے بعد اور سخت عذاب ہے۔ اب اس کی مختلف صورتیں تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جن میں سے بہت سی چیزیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، البتہ عذاب کے طور پر مسلط ہونے والی بھوک اور زقوم کے کھانے کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے، فرمایا : ﴿ اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ (43) طَعَامُ الْاَثِيْمِ (44) كَالْمُهْلِ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ (45) كَغَلْيِ الْحَمِيْمِ (46) خُذُوْهُ فَاعْتِلُوْهُ اِلٰى سَوَآءِ الْجَحِيْمِ (47) ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِ (48) ذُقْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ﴾ [الدخان : ۴۳ تا ۴۹ ] ’’بے شک زقوم کا درخت۔ گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔ اسے پکڑو، پھر اسے بھڑکتی آگ کے درمیان تک دھکیل کر لے جاؤ۔ پھر کھولتے پانی کا کچھ عذاب اس کے سر پر انڈیلو۔ چکھ، بے شک تو ہی وہ شخص ہے جو بڑا زبردست، بہت باعزت ہے۔‘‘ جہنم کے سخت عذاب کا اندازہ دنیا میں کسی طرح نہیں ہو سکتا جس کی آگ ہی یہاں کی آگ سے ستر (۷۰) گنا گرم ہے، البتہ جہنم کے سب سے کم عذاب کا بیان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اس سے سخت عذاب کا کچھ نہ کچھ اندازہ کر لیں، حقیقی علم تو ممکن ہی نہیں، نہ وہ بیان میں آ سکتا ہے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَهُ نَعْلَانِ وَ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ، يَغْلِيْ مِنْهُمَا دِمَاغُهُ، كَمَا يَغْلِي الْمِرْجَلُ مَا يَرَی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْهُ عَذَابًا، وَ إِنَّهُ لَأَهْوَنُهُمْ عَذَابًا)) [مسلم، الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا :364؍213]’’اہل نار میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہو گا جس کے لیے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے ہوں گے، ان دونوں سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا ہو گا جیسے ہانڈی ابلتی ہے، وہ نہیں خیال کرے گا کہ اس سے زیادہ بھی کسی کو عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ وہ ان سب سے کم عذاب والا ہو گا۔‘‘ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ عَذَابِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ]