إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
وہ تو تمھیں برائی اور بے حیائی ہی کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے۔
1۔ ”اَلسُّوْءُ“سے مراد کوئی بھی برائی ہے اور ”اَلْفَحْشَاءُ“ وہ برائی ہے جو حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً حد سے بڑھا ہوا بخل(بقرہ : ۲۶۸)، زنا (نور : ۱۹، ۲۱)، چوری، شراب اور قتل وغیرہ۔ 2۔یعنی شیاطین ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی خرابیوں ”اَلسُّوْءُ وَالْفَحْشَاءُ“ کو فروغ دیتے ہیں اور دوسری طرف دین میں بدعات پیدا کرکے لوگوں کے عقائد و اعمال خراب کرتے ہیں ۔ بغیر علم کے اللہ کے ذمے کوئی بات لگانے میں ہر وہ بات شامل ہے جو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو۔ مزید دیکھیے اعراف (۲۸، ۳۳)۔ پچھلی آیات کے لحاظ سے یہاں ”اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ“ سے مراد اللہ کے لیے شریک بنانا، شیطان کے کہنے پر اللہ کے حلال کردہ کو حرام قرار دینا، مثلاً بحیرہ و سائبہ وغیرہ اور اس کے حرام کو حلال سمجھنا، مثلاً مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز دینا، غرض اپنے پاس سے دین کی کوئی بھی بات بنا کر اللہ کے ذمے لگا دینا ہے۔