وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ
اور بلاشبہ یقیناً تجھ سے پہلے کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے ان لوگوں کو مہلت دی جنھوں نے کفر کیا، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا تھا۔
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ ....: ’’ عِقَابِ ‘‘ اصل میں ’’عِقَابِيْ‘‘ تھا۔ آیات کی موافقت کے لیے یاء حذف کر کے کسرہ رہنے دیا گیا۔ ’’أَمْلَيْتُ‘‘ باب افعال (ناقص واوی) بمعنی مہلت دینا، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کافروں کے ٹھٹھا مذاق کرنے اور ناجائز اور ناممکن مطالبات کرنے سے بد دل نہ ہوں، پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھے تو ہر گزرنے والا ان سے ٹھٹھا کرتا۔ [ ہود : ۳۸ ] شعیب علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہا : ’’ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔‘‘ [ الشعراء : ۱۸۷ ] ہود علیہ السلام کی قوم نے کہا : ’’ہم یقیناً تجھے بے وقوفی میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ [ الأعراف : ۶۶ ] فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو ’’ مُهِيْنٌ ‘‘ (حقیر) کہا اور زبان کی لکنت کا طعنہ دیا۔ [ الزخرف : ۵۲ ] فرمایا، اس کے باوجود میں نے کفار کو مہلت دی، تاکہ ان کا عذر ختم ہو جائے، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو آپ بھی ان کی حرکتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ لَيُمْلِيْ لِلظَّالِمِ حَتّٰی إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ )) ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِيَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَهٗ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ﴾ [ ھود : ۱۰۲ ] ’’اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی ہوتی ہیں، بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک، بہت سخت ہے۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿و کذٰلک أخذ ربک إذا أخذ القریٰ....﴾: ۴۶۸۶، عن أبي موسٰی رضی اللّٰہ عنہ ۔ مسلم : ۲۵۸۳ ]