أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
پھر کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ بے شک جو کچھ تیرے رب کی جانب سے تیری طرف اتارا گیا وہی حق ہے، اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے؟ نصیحت تو عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَا اُنْزِلَ.....: یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو نہیں جانتا، یوں فرمایا کہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی طرف سے آنے والی نشانیاں آنکھوں سے نظر آ رہی ہیں، جو ان کا علم اور یقین نہیں رکھتا درحقیقت وہ اندھا ہے اور اس کا یہ اندھا پن قیامت کو اچھی طرح ظاہر ہو جائے گا۔ دیکھیے سورۂ طہ (۱۲۴ تا ۱۲۶) یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔’’ اُولُوا ‘‘ ’’ذُوْ‘‘ کی جمع ہے، بمعنی والے۔ ’’ الْاَلْبَابِ ‘‘ ’’لُبٌّ‘‘ کی جمع ہے، ہر چیز میں سے جو خالص ہو، خالص عقل جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو۔ (مفردات) اس لیے ترجمہ ’’عقل والوں‘‘ کے بجائے ’’عقلوں والے‘‘ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ نصیحت صرف خالص اور پاکیزہ عقل والے حاصل کرتے ہیں، الٹے دماغ والے نہیں۔