أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ
اس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو کئی نالے اپنی اپنی وسعت کے مطابق بہ نکلے، پھر اس ریلے نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا۔ اور جن چیزوں کو کوئی زیور یا سامان بنانے کی غرض سے آگ پر تپاتے ہیں ان سے بھی اسی طرح کا جھاگ (ابھرتا) ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے، پھر جو جھاگ ہے سو بے کار چلا جاتا ہے اور رہی وہ چیز جو لوگوں کو نفع دیتی ہے، سو زمین میں رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔
1۔ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً.....: ’’ اَوْدِيَةٌ‘‘ (نالے) وادی کی جمع ہے جو اصل میں پانی بہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کو بھی کہہ لیتے ہیں، کبھی راستے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ پہاڑوں میں عموماً راستے پہاڑی نالوں کے کناروں کے ساتھ چلتے ہیں۔ ’’ زَبَدًا ‘‘ وہ کوڑا کرکٹ اور جھاگ جو پانی کی تیز رفتاری کے باعث اس کی سطح پر ابھر آتا ہے، یا ہانڈی کے اوپر ابھر آتا ہے۔ ’’ رَابِيًا ‘‘ ’’ رَبَا يَرْبُوْ رَبْوًا ‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، بمعنی بڑھنے والا، ابھرنے والا۔ ’’حِلْيَةٍ ‘‘ سونے چاندی وغیر کا زیور جس سے انسان زینت حاصل کرتا ہے۔ ’’جُفَآءً ‘‘ نالہ یا ہانڈی جو خس و خاشاک یا جھاگ وغیرہ کناروں پر پھینک دیتے ہیں، اسے ’’جُفَآءً ‘‘ کہتے ہیں۔ شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی بیان فرمائی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ باطل بعض اوقات حق کے اوپر غالب آ جائے، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے اور بے قدر و قیمت بنا دیتا ہے، حسن انجام حق اور اہل حق ہی کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ جھاگ اور خس و خاشاک بے شک پانی کو ڈھانپ لیتے ہیں، مگر آخر کار پانی انھیں کناروں پر پھینک کر بے کار کر دیتا ہے اور خالص پانی سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح سونا چاندی اور دوسری دھاتوں کو پگھلایا جائے تو ان کا میل کچیل بھی اوپر آ جاتا ہے مگر آخر کار کچھ اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور کچھ جل جاتا ہے۔ غرض، سارا میل کچیل بے کار جاتا ہے اور لوگوں کے لیے نفع مند دھات خالص حالت میں باقی رہ جاتی ہے، جیسے سونا اور چاندی، جس سے وہ زیور بناتے ہیں، یا لوہا، تانبا اور پیتل وغیرہ جس سے برتن، اسلحہ اور دوسرا سامان بنتا ہے۔ استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان دونوں مثالوں میں حق (قرآن) کو پانی سے تشبیہ دی ہے اور نالوں سے مراد انسانوں کے دل ہیں جو اپنے اپنے ظرف و استعداد کے مطابق حق سے فیض حاصل کرتے ہیں، یا حق وہ زیور ہے جس سے نفوسِ انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور لوگ معاش و معاد میں اس سے انواع و اقسام کے منافع اور فوائد حاصل کرتے ہیں۔ باطل کی مثال جھاگ کی سی ہے جو حق سے کشمکش کے موقع پر وقتی طور پر ابھر کر اوپر آ جاتا ہے مگر آخر کار مٹ جاتا ہے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَثَلُ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰهُ مِنَ الْهُدَی وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيْرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ الْمَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيْرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللّٰهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا، وَأَصَابَ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَی، إِنَّمَا هِيَ قِيْعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً فَذٰلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذٰلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَی اللّٰهِ الَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِهِ)) [بخاری، العلم، باب فضل من علم و علّم : ۷۹ ] ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال بہت زیادہ بارش کی ہے جو ایک زمین پر برسی۔ اس زمین کا ایک حصہ بہت عمدہ (زرخیز) تھا، اس نے پانی قبول کیا (جذب کر لیا)، پھر بہت سی گھاس اور چارا اگایا اور اس کے کچھ حصے سخت زمین کے گڑھے تھے جنھوں نے پانی روک لیا تو اللہ نے اس کے ساتھ لوگوں کو نفع پہنچایا، چنانچہ انھوں نے پیا اور پلایا اور کھیتی باڑی کی اور اس کے بعض حصے چٹیل میدان تھے جو نہ پانی روکتے تھے اور نہ گھاس اگاتے تھے، تو یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور اسے اس (علم و ہدایت) نے نفع دیا جسے دے کر مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور اس شخص کی مثال جس نے اس کی طرف نہ سر اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جو دے کر مجھے بھیجا گیا (ان تینوں میں سے آخری مثال کافر کی ہے)۔‘‘ 2۔ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ : یعنی بات سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے جیسے یہاں دو مثالیں بیان فرمائیں، ایک صحرائی اور پہاڑی لوگوں کو پیش آنے والی (نالوں کی) اور ایک شہری لوگوں کو پیش آنے والی (دھاتوں کی)۔ اسی طرح سورۂ بقرہ کے شروع میں منافقین کی دو مثالیں اور سورۂ نور (۳۹، ۴۰) میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔ غرض قرآن و حدیث میں بہت سی مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے۔