وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنھیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو پھل میں بعض پر فوقیت دیتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
1۔ وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ ....: ’’ قِطَعٌ ‘‘ ’’قِطْعَةٌ‘‘ کی جمع ہے، بمعنی ٹکڑے۔’’مُتَجٰوِرٰتٌ ‘‘ ’’جِوَارٌ ‘‘ (ہمسائیگی) سے باب تفاعل کا اسم فاعل ہے، یعنی ساری زمین ایک جیسی نہیں، کوئی ٹکڑا زرخیز زمین کا ہے کوئی شور کا، کوئی نرم زمین ہے کوئی پتھریلی اور یہ سب قطعے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں، اب اسی زمین میں کسی علاقے میں کوئی کھیتی اور پھل پیدا ہوتا ہے کسی میں کوئی، اور اسی میں انگوروں (اور دوسرے پھلوں) کے باغات ہیں (قرآن کا اختصار دیکھیے کہ صرف انگوروں کا ذکر کرکے باقی باغات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیے) اور کھیتی ہے (اس میں ہر کھیتی آ گئی) اور کھجوروں کے درخت دو قسم کے ہیں (’’ صِنْوَانٌ ‘‘ ’’صِنْوٌ‘‘ کی جمع ہے، تثنیہ بھی یہی ہے، اس کا اصل معنی مثل ہے، جیسے فرمایا : ’’عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيْهِ‘‘ یعنی آدمی کا چچا اس کے باپ کی مثل ہے۔ کھجور کا تنا نیچے سے ایک ہو اور اوپر اس تنے سے کئی تنے نکلیں تو وہ ’’ صِنْوَانٌ ‘‘ ہے اور اگر یہ ایک ہی تنا رہے تو یہ ’’ غَيْرُ صِنْوَانٍ ‘‘ ہے ) اس قسم کے دوسرے درخت اس سے خود سمجھ لیں۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، پھر اسی زمین اور اسی پانی سے کوئی پھل کڑوا پیدا ہو رہا ہے کوئی میٹھا، کوئی بدمزہ کوئی مزیدار اور کوئی اس سے بھی بڑھ کر لذت والا۔ پھر دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قُبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْاَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰي قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَبْيَضُ وَالْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ)) [ مسند أحمد :4؍400، ح : ۱۹۶۰۱۔ ترمذی : ۲۹۵۵۔ أبوداؤد : ۴۶۹۳، و صححہ الألبانی ] ’’آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے لیے پوری روئے زمین سے اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی لی (جس میں سفید، سیاہ، سرخ ہر رنگ اور نرم، سخت، شور، زرخیز ہر قسم کی مٹی آ گئی) اور آدم کی اولاد اسی کے مطابق کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی سیاہ، کوئی اس کے درمیان، کوئی خبیث، کوئی طیب اور کوئی نرم، کوئی سخت پیدا ہوتی ہے اور کوئی اس کے درمیان۔‘‘ ایک ہی زمین، ایک ہی پانی، ایک ہی باپ اور اسی کے نطفے سے بے شماررنگا رنگ انسان پیدا ہوئے۔ 2۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : معلوم ہوا کوئی کمال کاریگر اور پوری قدرت والا مدبر ہے جس کے کرنے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختلف مقامات پر کیا ہے۔ عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس میں بے شمار نشانیاں ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لیے کوئی نشانی نہیں۔