سورة یوسف - آیت 98

قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس نے کہا میں عنقریب تمھارے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا۔ بے شک وہی بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ....: یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی طرح درخواست کے بغیر فوراً استغفار کے بجائے صرف وعدہ کیا کہ میں تمھارے لیے استغفار کروں گا جو یقیناً انھوں نے پورا کیا ہو گا۔ اہلِ علم نے اس کی کئی وجہیں بیان فرمائی ہیں، ایک تو یہ کہ بھائی کا حق بھائی پر اتنا نہیں ہوتا جتنا باپ کا بیٹے پر ہوتا ہے، اس لیے والد کو ناراضگی زیادہ تھی۔ دوسری یہ کہ بے شک یوسف علیہ السلام پر بے پناہ آزمائشیں آئیں مگر غم اور صدمے کا اثر والد پر زیادہ تھا۔ تیسری یہ کہ والد معلوم کرنا چاہتے تھے کہ یوسف نے انھیں معاف کیا ہے یا نہیں، کیونکہ مظلوم کے معاف کرنے کے بعد ہی ظالم کے لیے استغفار ہو سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے بعض تابعین وصحابہ کے اقوال نقل فرمائے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے ان سے پچھلی رات دعا کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیونکہ وہ قبولیت کا وقت ہے، مگر انھوں نے یہ بات قرآن مجید یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان نہیں کی جب کہ ہزاروں سال پہلے کی بات کا کوئی پختہ ذریعہ ان دونوں کے علاوہ ہے ہی نہیں۔ مفسر ابن جریر اور ابن کثیر رحمھما اللہ نے ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے ان سے جمعہ کی رات کو استغفار کا وعدہ کیا تھا، مگر اس کی سند میں تین خرابیاں ہیں، ایک ابن جریج کا اسے لفظ ’’عَنْ ‘‘ سے روایت کرنا، جب کہ وہ مدلس ہیں، دوسری ولید بن مسلم قرشی حدیث مرفوع بیان کرنے کی غلطی کر جاتے ہیں اور تدلیس تسویہ کرتے ہیں، تیسری سلیمان بن عبد الرحمان میں حافظے کی بنا پر کلام ہے۔ قرآن مجید بھولنے والی حدیث بھی اسی سند کے ساتھ ہے۔ (سامی بن محمد بن عبد الرحمان محقق و محشی تفسیر ابن کثیر)