سورة یوسف - آیت 46

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یوسف! اے نہایت سچے! ہمیں سات موٹی گائیوں کی تعبیر بتا، جنھیں سات دبلی کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشوں اور دوسرے خشک خوشوں کی بھی، تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں، تاکہ وہ جان لیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ.....: ’’ يُوْسُفُ ‘‘ سے پہلے حرف ندا ’’ يَا ‘‘ وغیرہ محذوف ہے، جس کی وجہ سے یہ مبنی علی الضم ہے۔ ’’الصِّدِّيْقُ ‘‘ ’’صَدَقَ‘‘ کے اسم فاعل میں مبالغہ ہے جو ہر حال میں اپنے قول، فعل اور حال کا سچا ہو، جس کی عادت ہی ہر حال میں سچ ہو، اس کا قول سچ ہو اور اس کا فعل اور حال بھی اس کے مطابق ہو۔ صدیقیت کے کئی درجے ہیں، مومن بھی صدیق ہے بمقابلہ کافر (دیکھیے حدید : ۱۹) اور ابوبکر بھی صدیق ہیں اور امت میں اس درجے کا کوئی صدیق نہیں۔ ابراہیم اور ادریس علیھما السلام کے بارے میں سورۂ مریم (۴۱، ۵۶) میں ’’ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ‘‘ آتا ہے، یوسف علیہ السلام بھی صدیق ہیں۔ ساقی کو ان کا صدیق ہونا تعبیر سے پہلے بھی مشاہدے سے ثابت ہو چکا تھا، اسی لیے انھوں نے کہا : ﴿ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۳۶ ] پھر تعبیر کے بعد عین اسی طرح واقع ہونے سے ان کے صدیق ہونے کی مزید تصدیق ہو گئی۔ 2۔ یہاں ساقی کا رویہ دیکھیں کہ اس کی طرف سے بھول جانے کی معذرت کا کوئی ذکر نہیں اور یوسف علیہ السلام کے سینے کی وسعت دیکھیں، پوچھا ہی نہیں کہ تمھیں اتنی دیر یوسف صدیق یاد نہ آیا، اب کیا لینے آئے ہو۔ غرض کے بندوں اور محسنین کا یہی فرق ہے۔ 3۔ ساقی نے خواب دیکھنے والے کا ذکر نہیں کیا، البتہ خواب عین انھی الفاظ میں بیان کیا جو بادشاہ کے تھے، کیونکہ ایک لفظ کے فرق سے بھی مطلب کچھ اور بن جاتا ہے۔ قرآن میں دونوں جگہ خشک گائیوں کے موٹی گایوں کو کھانے کا ذکر تو ہے مگر خشک خوشوں کے سبز خوشوں پر لپٹنے کا ذکر مفسرین نے کہاں سے لیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ساقی نے درخواست کی کہ آپ ہمیں اس خواب کے بارے میں فتویٰ دیں (تعبیر بتائیں) لوگ منتظر ہیں، تاکہ میں جا کر انھیں بتاؤں اور وہ بھی جان لیں۔