سورة یوسف - آیت 32

قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس عورت نے کہا تو وہ یہی ہے جس کے بارے میں تم نے مجھے ملامت کی تھی اور بلاشبہ یقیناً میں نے اسے اس کے نفس سے پھسلایا، مگر یہ صاف بچ گیا اور واقعی اگر اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے حکم دیتی ہوں تو اسے ضرور ہی قید کیا جائے گا اور یہ ضرور ہی ذلیل ہونے والوں سے ہوگا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ.....: ’’ذٰلِكُنَّ ‘‘ میں اسم اشارہ ’’ذَا‘‘ ہی ہے، جس کے ساتھ مخاطب کی ضمیر یہ دیکھ کر لگائی جاتی ہے کہ مخاطب مرد ہے یا عورت، ایک ہے یا دو یا زیادہ، مثلاً آپ ایک شخص سے مخاطب ہیں اور اسے کسی آدمی کی طرف اشارہ کر کے کچھ بتانا چاہتے ہیں تو کہیں گے : ’’ذٰلِكَ الرَّجُلُ الْمَذْكُوْرُ‘‘ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر کسی عورت سے بات کر رہے ہوں گے تو کہیں گے : ’’ذٰلِكِ الرَّجُلُ الْمَذْكُوْرُ ‘‘ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر آپ یہی بات کہنا چاہتے ہوں اور آپ کے مخاطب دو ہوں تو کہیں گے : ’’ذٰلِكُمَا الرَّجُلُ الْمَذْكُوْرُ‘‘ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے قید کے دو ساتھیوں سے فرمایا : ﴿ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ ﴾ [ یوسف : ۳۷ ] ’’یہ وہ چیز ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی۔‘‘ یہ معنی نہیں کہ یہ دو چیزیں۔ زیر تفسیر آیت میں عزیز کی بیوی کی مخاطب کئی عورتیں تھیں، اس لیے اس نے کہا : ﴿ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ ﴾ اب ’’ذٰلِكُنَّ ‘‘ کا معنی یہ سب عورتیں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے یہ ہے وہ شخص۔ صرف مخاطب جمع مؤنث ہونے کی وجہ سے ’’ذٰلِكُنَّ‘‘ آیا ہے۔ اگر مخاطب بہت سے آدمی ہوتے تو اسی مفہوم کے لیے ’’ذٰلِكُمْ‘‘ آتا، جیسے فرمایا : ﴿ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ [ البقرۃ : ۵۴ ] ’’یہ چیز تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ 2۔ ’’ فَاسْتَعْصَمَ ‘‘ سین اور تاء کے اضافے سے طلب کا معنی بھی حاصل ہوتا ہے اور مبالغے کا بھی۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’وہ صاف بچ گیا‘‘ یا کہہ لیں ’’بالکل بچ گیا۔‘‘ ’’ لَيُسْجَنَنَّ ‘‘ میں نون تاکید ثقیلہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’اسے ضرور ہی قید کیا جائے گا۔‘‘ ’’ وَ لَيَكُوْنًا ‘‘ یہ نون تاکید خفیفہ ہے، جسے عام طور پر لکھا جاتا ہے ’’ وَلَيَكُوْنَنْ ‘‘ مگر عربی رسم الخط وقف کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ نون خفیفہ وقف میں الف ہو جاتا ہے، مثلاً یہی لفظ اگر اس پر وقف کریں تو اسے ’’لَيَكُوْنَنْ‘‘ نہیں پڑھا جائے گا بلکہ ’’لَيَكُوْنَا‘‘ الف کے ساتھ پڑھا جائے، اس لیے اس نون کو الف کی شکل میں لکھا جاتا ہے، جیسا کہ ’’خَبِيْرًا‘‘ اور ’’بَصِيْرًا‘‘ وغیرہ میں نون تنوین ’’خَبِيْرَنْ، بَصِيْرَنْ‘‘ کے بجائے الف کی شکل میں ہے کہ وقف نہ ہو تو نون پڑھو، وقف ہو تو الف پڑھو۔ سورۂ علق میں ’’ لَنَسْفَعًا ‘‘ میں بھی نون تاکید خفیفہ ہے جو الف کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ 3۔ بعض مفسرین نے ’’ لَيُسْجَنَنَّ ‘‘ میں نون تاکید ثقیلہ یعنی تشدید کے ساتھ اور ’’ لَيَكُوْنًا ‘‘ میں خفیفہ یعنی جزم کے ساتھ ہونے کی توجیہ فرمائی ہے کہ ثقیلہ میں تاکید زیادہ ہوتی ہے، تو عزیز کی بیوی کے خیال میں اس کے لیے یوسف علیہ السلام کو قید کروانا تو یقینی تھا، مگر ان کے ذلیل ہونے کا پورا یقین اسے بھی نہ تھا، بھلا ایسے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو ذلیل کیا جا سکتا ہے؟ اس لیے اس نے لفظ نرم کر دیا۔