يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
یوسف! اس معاملے سے درگزر کر اور (اے عورت!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، یقیناً تو ہی خطا کاروں سے تھی۔
1۔ يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا.....: عزیز مصر نے حقیقت حال جان لینے کے بعد یوسف علیہ السلام سے کہا کہ یوسف! اس معاملے سے در گزر کرو (تاکہ بات نہ پھیلے، بلاشبہ تمھاری سچائی اور پاک بازی ثابت ہو گئی ہے)۔ ادھر اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے گناہ کے لیے استغفار کر، معافی مانگ، یقیناً تو ہی خطاکاروں سے تھی۔ ’’مُخْطِئٌ‘‘ اور ’’خَاطِئٌ‘‘ کا یہی فرق ہے، پہلا وہ شخص ہے جس سے بھول کر خطا ہو جائے نہ کہ دانستہ طور پر اور ’’خَاطِئٌ‘‘ وہ ہے جو جان بوجھ کر غلط کام کرے، جیسے فرمایا : ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـِٕيْنَ ﴾ [ القصص: ۸ ] ’’بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔‘‘ 2۔ بظاہر یہ عزیز مصر کا حلم و تحمل ہے، مگر درحقیقت اس سے اس کا بے غیرت اور دیوث ہونا ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اسے معمول کی ایک بات قرار دے کر معاملہ نمٹا دیا۔ نہ بیوی کو کوئی سزا دی اور نہ انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کا کوئی اہتمام ضروری سمجھا۔ اس سے اس وقت کے مصر کے اونچے طبقے کی اخلاقی حالت معلوم ہوتی ہے جو اب مسلمانوں کے طبقۂ اشراف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ (الا ما شاء اللہ) 3۔ وَ اسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے لوگوں میں خواہ نیک ہوں یا بد، گناہ اور نیکی کی پہچان پائی جاتی ہے اور ایسی ہستی پر بھی کسی نہ کسی حد تک ایمان پایا جاتا ہے جس کی نافرمانی کے بعد اس سے بخشش مانگنی چاہیے۔