قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
کہا اے ہمارے باپ! بے شک ہم دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے کوئی بھیڑیا کھا گیا اور تو ہرگز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔
قَالُوْا يٰاَبَانَا اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ.....: ’’ اِسْتِبَاقٌ‘‘ باب افتعال کا مصدر ہے، آگے نکلنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ، وہ پیدل دوڑ میں آگے نکلنے کا ہو یا گھوڑوں پر (اِسْتِبَاقُ الْخَيْلِ ) یا نشانہ بازی میں (اِسْتِبَاقُ الرَّمْيِ ) یعنی ہم دوڑ کے مقابلے میں دور نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ ’’ الذِّئْبُ ‘‘ کا الف لام تخصیص کے لیے نہیں، جنس کے لیے ہے، یعنی کوئی بھیڑیا اسے کھا گیا۔ ساتھ ہی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے والد پر چڑھائی کر دی کہ آپ تو ہم سے اس قدر بدظن ہیں کہ کسی صورت ہم پر اعتبارکرنے والے ہی نہیں، خواہ ہم بالکل سچے ہوں۔ مگر سننے والا یہ تو ضرور سوچتا ہے کہ بھیڑیا انھیں ہڈیوں سمیت کھا گیا اور ایک ذرہ بھی باقی نہیں چھوڑا جو ساتھ لے آتے، خصوصاً اس لیے کہ نہ وہ ان کا کچھ بچا کھچا جسم واپس لائے نہ یہ کہا کہ ہم نے اسے دفن کر دیا۔