فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب وہ اسے لے گئے اور انھوں نے طے کرلیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا، اس حال میں کہ وہ سوچتے نہ ہوں گے۔
1۔ فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَ اَجْمَعُوْا اَنْ ....: ’’ اَجْمَعُوْا ‘‘ باب افعال ہے، کسی کام کا مصمم عزم کر لینا، یعنی آخر وہ باپ کے کسی عذر کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے خاموش ہونے پر اسے اپنے ساتھ لے ہی گئے۔ اب یہاں قرآن کریم کا کمال اعجاز دیکھیے، فرمایا : ’’پھر جب وہ اسے لے گئے اور طے کر لیا کہ اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دیں‘‘ تو پھر کیا ہوا؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ذکر ہی نہیں فرمایا، تاکہ سننے والے خود ہی سمجھ لیں کہ قتل تک کا منصوبہ بنانے والے ان دس شیر جوانوں نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کنویں میں پھینکنے کے وقت اور اس سے پہلے کیا سلوک کیا ہو گا۔ قرآن اشارہ کرتا ہے، پھر سمجھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے اور کچھ اس لیے بھی کہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ ان کا سلوک تصور میں تو آسکتا ہے، اسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ہے، یا پھر بات اتنی لمبی ہو جائے گی جو قرآن کا طریقہ نہیں۔ مفسر آلوسی نے فرمایا : ’’انھیں کنویں میں پھینکنے کی کیفیت اور اس وقت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے جو کچھ کہا اور جو کچھ انھوں نے اس سے کہا، اس کے متعلق کتبِ تفسیر میں بہت سی روایات ہیں جنھیں سن کر پتھر بھی پانی ہو جاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کی سند پر اعتماد ہو سکتا ہو۔‘‘ کیونکہ ان مفسرین میں سے کوئی چشم دید بیان کرنے والا ہے ہی نہیں اور وہ عالم الغیب جو سب کچھ دیکھ رہا تھا اس نے یہ بات ہمارے خود سوچنے کے لیے بلا تفصیل چھوڑ دی ہے۔ 2۔ وَ اَوْحَيْنَا اِلَيْهِ.....: یعنی اس مشکل وقت میں یوسف علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے تسلی دی گئی کہ ایک ایسا وقت ہر صورت آئے گا جب تم ان بھائیوں کو ان کا یہ کام بتاؤ گے، جب کہ طویل مدت اور آج اور اس وقت کے حالات کے فرق کی وجہ سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ہم اسی بھائی سے پورا غلہ دینے اور صدقہ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جسے ہم کنویں میں پھینک کر اس سے فارغ ہو چکے تھے۔ یہاں ’’ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ هٰذَا ‘‘ (تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا) میں ’’ان کے اس کام‘‘ کے الفاظ میں بھی ان کے یوسف علیہ السلام کے ساتھ سلوک کی لمبی و دلخراش داستان دو تین لفظوں میں سمٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ 3۔ کچھ لوگ یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ سے کہ ’’میں ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے گا‘‘ ان کے لیے علمِ غیب ثابت کرتے ہیں، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں یوسف علیہ السلام پر گزرنے والی حالت، ان کی غلامی، عفت کی آزمائش، قید خانے کے سال، بادشاہ کے خواب کا قید سے نکلنے کا ذریعہ بننا، خوش حالی اور قحط کے سال، قید سے نکل کر قرب شاہی اور وزارتِ خزانہ کا حصول، یہ سب کچھ یعقوب علیہ السلام کو کیوں معلوم نہ ہو سکا؟ آنکھیں غم سے سفید کیوں ہو گئیں؟ کیا علم غیب یہی ہوتا ہے؟ ہا ں، پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ جتنی بات وحی کے ذریعے سے بتاتا ہے وہ انھیں معلوم ہو جاتی ہے، جیسے بشارت دینے والے کے مصر سے قمیص لے کر چلنے کے ساتھ ہی انھیں یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنے لگی اور قمیص آنکھوں پر ڈالنے سے بینائی واپس آ گئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ یہ نہ یوسف علیہ السلام کے بس کی بات تھی اور نہ ان کے والد ماجد یعقوب علیہ السلام کے بس کی۔ اللہ تعالیٰ جتنی بات بتا دے وہ معلوم، باقی کی خبر نہیں، ایسا شخص عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ غیب کی کئی باتیں ہمیں بھی رسول کے بتانے سے معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہو گئے؟ نہیں، آسمان و زمین میں عالم الغیب صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے، جیسے فرمایا : ﴿ قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ [ النمل : ۶۵ ] ’’کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔‘‘